سعودی، ایرانی وزرائے خارجہ ملاقات، سکیورٹی اور استحکام کا عزم

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان کے درمیان چین میں ہونے والی ملاقات سات سال سے زائد عرصے میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین سطح پر پہلی باضابطہ ملاقات ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ نے جمعرات کو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ملاقات کی، جس کے دوران خطے میں سکیورٹی اور استحکام لانے کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان کے درمیان جمعرات کو ہونے والی ملاقات سات سال سے زائد عرصے میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین سطح پر پہلی باضابطہ ملاقات ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں فریقوں نے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’دونوں فریقوں نے بیجنگ معاہدے پر عمل درآمد اور اس کے فعال ہونے کی اہمیت پر زور دیا جس سے باہمی اعتماد اور تعاون کے شعبوں کو وسعت ملے اور خطے میں سلامتی، استحکام اور خوشحالی پیدا کرنے میں مدد ملے۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اعلامیے میں کہا گیا کہ ’سعودی عرب اور ایران نے دو ماہ کے اندر دونوں ملکوں میں سفارت خانے کھولنے پر اتفاق کیا۔‘

مزید کہا گیا کہ ’دونوں ممالک تعاون کو بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لینے کے لیے ہم آہنگی جاری رکھیں گے، جن میں پروازوں کے دوبارہ آغاز اور دوطرفہ دوروں کے علاوہ شہریوں کے لیے ویزوں کی سہولت فراہم کرنا شامل ہیں۔‘

جمعرات کی صبح ٹوئٹر پر نشر ہونے والی مختصر ویڈیوز میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان کو ساتھ بیٹھنے سے پہلے ایک دوسرے سے مصافہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

برسوں کی کشیدگی کے بعد تہران اور ریاض نے رواں برس 10 مارچ کو چین کی ثالثی میں اپنی سفارتی خلیج کو ختم کرنے اور سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔

سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ تعلقات اس وقت منقطع کر لیے تھے جب دونوں ممالک کے درمیان تنازع کے دوران تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس واقعے کے بعد سعودی عرب نے ایرانی سفارت کاروں کو 48 گھنٹوں کے اندر اندر ملک سے نکل جانے کا حکم دیا تھا جب کہ اس نے تہران سے اپنے سفارت خانے کے عملے کو بھی نکال لیا تھا۔

یمن جنگ میں ایرانی مداخلت کے بعد بھی ریاض اور تہران کے تعلقات 2015 سے ایک بار پھر مزید بگڑ گئے تھے۔

ریاض نے ایران پر حوثیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کا الزام لگایا، جنہوں نے کئی سعودی شہروں اور تیل کی تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔

سعودی عرب نے 2019 میں آرامکو کی تیل کی تنصیبات پر ایک بڑے حملے کا الزام ایران پر لگایا تھا، جس سے اس کی تیل کی پیداوار کا نصف حصہ براہ راست متاثر ہوا تھا، تاہم ایران نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔

امریکہ کے لیے چیلنج

ایران اور سعودی عرب کو ایک ساتھ لانے میں چین کی کامیابی نے مشرق وسطیٰ میں اہم ثالث کے طور پر امریکہ کے دیرینہ کردار کو چیلنج کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ’یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایرانی اس معاہدے کا کتنا احترام کریں گے۔‘

بیجنگ میں معاہدے پر پہنچنے سے قبل ایران اور سعودی عرب کے حکام کے درمیان بغداد اور عمان میں بات چیت کے کئی ادوار ہوئے۔

ان مذاکرات میں شامل ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ علی شمخانی نے کہا کہ ’غلط فہمیوں کو دور کرنا اور تہران اور ریاض کے تعلقات یقینی طور پر علاقائی استحکام اور سلامتی کی ترقی کا باعث بنیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ ’موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خلیج فارس کے ممالک اور اسلامی دنیا کے درمیان تعاون کو بڑھا سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا