سکردو:فرمان علی کے میوزیم میں ’کروڑوں روپے کےنوادرات‘ موجود

فرمان علی کہتے ہیں: ’میں نے قوم کا یہ اثاثہ جمع کیا ہے، آگے آنے والی نسلوں نے اسے سنبھالنا ہے یا نہیں، مجھے علم نہیں۔‘

گلگت بلتستان میں ضلع سکردو کے گاؤں کورادو کے فرمان علی نے 40 سال کے عرصے میں اپنا ایک ذاتی میوزیم بنایا ہے، جس کے لیے انہوں نے اپنی زمین بیچ کر سب کچھ جمع کیا اور اب ان کے پاس ’کروڑوں روپے مالیت کے نوادرات‘ ہیں۔

فرمان علی کے اس ذاتی میوزیم میں مختلف اقسام کے مقامی پتھر، جانوروں کے سینگ، چمڑے کی اشیا، لکڑی، اون، بکری اور یاک کے بال، درختوں کی چھال، لوہے کے مختلف اوزار، گھریلو ظروف، آلات حرب اور کئی ایسی اشیا شامل ہیں جو زمانہ قدیم کی مہارت کے عکاس ہیں۔

یہاں سماوار اور طبریل برتنوں کی درجنوں اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں، جو شاہی درباروں اور نجی محفلوں میں بلتی نمکین چائے قہوہ کے لیے استعمال کی جاتی رہی تھیں۔

درجنوں اقسام کے صدیوں پرانے حقے بھی فرمان میوزیم کی زینت ہیں، جن میں مقامی طور پر یاک کے سینگ سے بنے ہوئے قدیم حقے بھی شامل ہیں۔

بلتستان میں عہد وسطیٰ کے دوران تمباکو نوشی کا رجحان زوروں پر تھا اور لوگوں میں یہ ذوق بڑے پیمانے پر موجود تھا۔ سینگ سے بنے ہوئے اس ساخت کے حقے ان علاقوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے۔

اس  میوزیم میں لکڑی اور لوہے کے تالوں کی کئی درجن قسمیں موجود ہیں۔ لکڑی کے تالے بلتستان سے لے کر لداخ و تبت تک کے علاقے میں قدیم زمانے سے رائج رہے ہیں۔ بعد ازاں لوہے کے تالے بنانے کا رجحان آ گیا۔

سنگ خارا کی بنی مختلف النّوع ہانڈیاں ’کورومبو‘ اور ’کوات‘ بھی اس میوزیم کا اہم اثاثہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان میں مقامی ڈش ’کاچی‘ بنانے کی ایک ہانڈی اتنی بڑی ہے کہ اس میں کم از کم دو سو لوگوں کے لیے بیک وقت کھانا پکایا جاسکتا ہے۔ یہ راجاؤں کی تقریبات اور مذہبی رسومات کے موقعوں پر استعمال میں لائی جاتی تھی۔

ان میں کئی کئی خانوں والی ہانڈیاں بھی موجود ہیں۔

یہاں موجود آلات حرب میں تلوار، ٹوپی دار و ماشہ دار بندوقیں، پسٹل (فوتونگ تواق)، ڈھال (پھلی)، آہنی ٹوپی (گوہرموق)، زرہ (کھڑب) اور دوربین وغیرہ کی بھی کئی کئی قسمیں ہیں۔ ایک گرز (ڈوپوس) بھی ہے جسے تلوار کی طرح دو بدو جنگ میں استعمال کیا جاتا تھا۔

اس میوزیم میں کمان اور تیر بھی ہیں جو کبھی اس علاقے کے اہم جنگی ہتھیار تھے۔

اس میوزیم کے لیے نوادرات جمع کرنے کا سلسلہ فرمان نے اب بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’میں نے قوم کا یہ اثاثہ جمع کیا ہے، آگے آنے والی نسلوں  نے اسے سنبھالنا ہے یا نہیں، مجھے علم نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ