صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے قدیم شہر کالاباغ میں رمضان کے دوران میدے یا سوجی سے تیار کردہ سفید رنگ کی سویاّں کئی عشروں سے تیار ہو رہی ہیں، جنہیں روزے دار سحر و افطار میں دیسی گھی اور شکر ڈال کے کھاتے ہیں۔
یہ خوش ذائقہ اور لذیذ سویاّں اب جدید مشینوں کے ساتھ بھی بنائی جاتی ہیں۔
اسے بنانے کے لیے سب سے پہلے سوجی میں پانی ڈال کر انہیں باہم ملایا جاتا ہے اور پھر سوجی کا آٹا گوندھ کے اس کے پیڑے بنائے جاتے ہیں، جنہیں ایک مشین میں ڈالا جاتا ہے اور ہاتھ سے مشین کا دستہ گھمایا جاتا ہے۔
مشین سے سویاّں لچھے کی شکل میں نیچے آتی ہیں، جنہیں مشین سے ہی لمبی لمبی باریک سویوں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
اس وقت یہ سویاّں لمبی رسیوں کی شکل میں ہوتی ہیں، جن کو صحن میں بندھی تار پر ڈالا جاتا ہے اور سوکھنے کے بعد انہیں چارپائی پر پھیلا دیا جاتا ہے۔
کھانے سے پہلے انہیں پانی میں ڈال کر ابالا جاتا ہے، جس سے یہ نرم ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد انہیں پلیٹ میں ڈال کر ان پر دیسی گھی اور شکر ڈالی جاتی ہے۔ بعض لوگ شکر کی بجائے ان میں چینی ڈالنا پسند کرتے ہیں۔
کالاباغ میں گذشتہ کئی سال سے دیسی سویاّں تیار کرنے والے عبدالمالک کلیار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ یہ کام کئی سال سے کر رہے ہیں۔
بقول عبدالمالک: ’ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ آج سے کئی سال پہلے یہ سویاّں مٹی کے گھڑے میں تیار کی جاتی تھیں جنہیں پرانے لوگ بہت شوق سے کھاتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال کے جواب میں عبدالمالک نے بتایا کہ یہ سویاّں 200 روپے فی کلو فروخت ہوتی ہیں اور لوگ ملک بھر میں انہیں اپنے عزیز واقارب کو بھیجتے ہیں۔
’ویسے تو یہ دیسی سویاّں سال کے 12 ماہ فروخت ہوتی ہیں مگر رمضان المبارک میں ان کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ سویاّں سوجی، میدے اور گندم کے آٹے سے بھی تیار کی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’زمیندار لوگ زیادہ تر گندم کے خالص آٹے سے تیار کی گئی سویاّں پسند کرتے ہیں جبکہ کالاباغ کے مقامی لوگ سوجی والی سویاّں زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ضلع میانوالی سے باہر کے اضلاع کی بات کی جائے تو وہاں کے لوگ میدے سے بنی سویاّں زیادہ پسند کرتے ہیں۔‘
ہاتھ کی مشین سے تیار ہونے والی یہ سویاّں صرف کالاباغ میں ہی تیار کی جاتی ہیں اور خصوصی طور پر گھریلو خواتین بھی تیار کرتی ہیں۔