برطانیہ میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسر نے مبینہ طور پر اپنی والدہ کے نوجوان عاشق کی گاڑی کو ’گھات لگا کر‘ اپنی گاڑی سے ٹکر مار دی جس سے ان کی گاڑی سڑک سے دور جا گری اور ان کی موت واقع ہو گئی۔
اس سے پہلے مقتول نے خاتون کے ساتھ تین سالہ تعلقات کو جنسی ٹیپ کے ذریعے بے نقاب کرنے کی دھمکی دی تھی۔
23 سالہ ٹک ٹاکر مہک بخاری جنہیں مایا کے نام سے جانا جاتا ہے، پر اپنی 46 سالہ والدہ عنصرین بخاری کے ساتھ مل کر 21 سالہ ثاقب حسین کو قتل کرنے کا الزام ہے، جو 11 فروری 2022 کو آدھی رات سے کچھ دیر بعد لیسٹر شائر میں اے 46 ڈوئل کیریج وے پر کار حادثے میں جان سے چلے گئے تھے۔
حسین اور ان کے دوست محمد ہاشم اعجازالدین دونوں کی عمر 21 سال ہے اور وہ بین بری، آکسفرڈ شائر کے رہائشی ہیں۔ استغاثہ کے مطابق ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر سڑک سے اتار دیا گیا۔ اس ٹکر کے نتیجے میں اعجازالدین کی سکوڈا فابیا کار ’دو حصوں میں تقسیم‘ ہو گئی۔
اپنی موت سے چند لمحے قبل کار کی اگلی نشست پر بیٹھے ثاقب حسین کی طرف سے پولیس کو ایمرجنسی نمبر 999 پر کی گئی کال میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی کار جن حملہ آوروں نے ’سڑک سے دور دھکیلا‘ انہوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ انہوں نے دو کاروں میں سوار ہو کر ان کا تعاقب کیا۔
پیر کو لیسٹر کراؤن کورٹ میں چلائی گئی ریکارڈنگ میں انہوں نے کہا کہ ’وہ مجھے جان سے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مجھے جان سے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے سڑک سے دور دھکیلا جا رہا ہے۔‘
پھر انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’براہ کرم، میں آپ سے التجا کر رہا ہوں۔‘
حسین کو’اوہ میرے خدا ‘ کہتے ہوئے سنا گیا۔ اس کے بعد چیخ سنائی دی اور ٹکر کی آوازکے ساتھ اچانک کال منقطع ہو گئی۔
ایک بج کر 35 منٹ کے قریب جائے حادثہ پر پہنچنے والی پولیس کی فوٹیج میں سکوڈا کار کو آگ کے شعلوں میں لپٹا دکھایا گیا جو لیسٹر کے قریب سکس ہلز جنکشن پر ایک درخت کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ کس طرح ’مکمل طور پر بے قصور‘ اعجازالدین اپنے دوست کو اُس رات لیسٹر لے جانے پر راضی ہوئے اور وہ ’غلط وقت پر غلط جگہ پر‘ تھے۔ پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ حسین پر کی گئی مہربانی ’المناک اور ہلاکت خیز غلطی نکلی‘
کراؤن کیس کھولتے ہوئے کولنگ ووڈ تھامسن کے سی نے ججوں کو بتایا کہ 999 پر کی گئی کال پراسیکیوٹر کے اس دعوے کی بنیاد ہے کہ ’یہ کوئی عام ٹریفک حادثہ نہیں تھا۔‘
ججوں کو بتایا گیا کہ بعد میں ہونے والی پولیس کی تفتیش سے وہ حقیقت سامنے آئی جسے تھامسن نے ’محبت کی کہانی، جنون، بھتہ خوری اور بالآخر منصوبہ بندی سے کیا گیا ’قتل‘ قرار دیا۔
حسین کی موت کے بعد ان کے اہل خانہ نے سراغ رسانوں کو بتایا کہ ان کا اپنے سے بڑی عمر کی خاتون کے ساتھ تین سال سے معاشقہ چل رہا جو بچوں کی ماں اور شادی شدہ تھیں۔
تھامسن نے کہا کہ ’بظاہر حسین مس بخاری کے ساتھ محبت کرتے تھے۔‘ جنہیں وہ اینزی کے نام سے جانتے تھے جب کہ خاتون کی بیٹی کو اس ’تعلق کا علم تھا اور وہ اسے بخوشی قبول کرنے پر تیار تھیں۔ اگر ایسا نہیں تھا تو اس پر راضی ضرور تھیں۔‘
اگرچہ شروع میں ’کچھ لطف‘ تھا، اگرچہ ’جھگڑے‘ اور ’قطع تعلق‘ تھا لیکن حسین کے لیے یہ تعلق ’تبدیل‘ ہو گیا اور انہوں نے بعد میں خاندان کو بتایا کہ ’انہیں پیار ہو گیا ہے۔‘
عدالت کو بتایا گیا کہ اس تعلق کے دوران حسین نے مسز بخاری کو تفریح کے لیے باہر لے جانے پر تین ہزار پاؤنڈ تک رقم خرچ کی۔
تھامسن کے بقول: ’یہ واضح ہے کہ یہ جنسی تعلق تھا‘
’ثاقب حسین اور انصرین بخاری کی بہت سے برہنہ وڈیوز اور تصاویر ملی ہیں۔‘
’یہ مواد اس مقدمہ کا مرکزی نکتہ ہے کیوں کہ یہی وہ مواد ہے جس کے بارے میں کراؤن کا کہنا ہے وہ دو نوجوانوں کے قتل کا سبب بنا۔‘
جنوری 2022 تک مسز بخاری، حسین کی مرضی کے برعکس تعلق ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
’بدقستمی سے ایسا لگتا ہے کہ وہ (ثاقب حسین) یہ فیصلہ قبول نہیں کر سکے۔‘
تھامسن نے کہا کہ حسین نے اپنی سابق گرل فرینڈ کو بڑی تعداد میں پیغامات بھیجے جن میں انہوں ’تعلقات کے بارے میں تیزی سے جنونی ہوتے ہوئے، عنصرین سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اور ان سے رشتہ جاری رکھنے کی التجا کی۔‘
تھامسن نے کہا کہ ’یہ صورت حال غصے اور مایوسی کو ظاہر کرنے والے پیغامات میں تبدیل ہو گئی۔ وہ حسین کی ٹیلی فون کالز کا جواب نہیں دیتی تھیں۔‘
’ہم کہتے ہیں یہ بات جو کچھ ہوا اس کا محرک فراہم کرتی ہے۔‘
’کیوں کہ انہوں (ثاقب حسین) نے عنصرین بخاری کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیں اپنے ساتھ تعلق برقرار رکھنے پر آمادہ کر سکیں۔‘
تھامسن نے کہا کہ حسین نے بخاری کے شوہر کو جنسی مواد بھیجنے کی دھمکی دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ ’اس میں جو بات غیر واضح ہے وہ یہ ہے کہ کیا ان کے شوہر کو بھی اس معاملے کے بارے میں بتایا جائے گا، جیسے کہ ان کے بیٹے کو بتایا گیا۔‘
چار جنوری 2022 کو مہک بخاری نے اپنی والدہ کو ایک پیغام بھیجا جس میں لکھا تھا کہ ’میں انہیں اپنے لوگوں کے ذریعے چھلانگ لگانے پر مجبور کر دوں گی اور وہ نہیں جان سکیں گے کہ ایسا کس دن ہو گا۔‘
جب حسین نے مہک بخاری کے ذریعے ان کی والدہ سے جواب دلوانے کی کوشش بھی کی تو سوشل میڈیا انفلوئنسرنے جواب دیا کہ وہ پیغام رساں نہیں ہیں اور اپنی آواز بلند نہ کریں اور مجھے مت بتائیں کہ کیا کرنا ہے۔‘
بعد ازاں انہوں نے مبینہ طور پر حسین سے کہا کہ ’مجھے افسوس ہے کہ اس سال آپ نہیں رہیں گے، ثاقب۔‘
تھامسن نے کہا کہ ’یہ جملہ 11 فروری 2022 کے دن کے آغاز میں ہونے والے واقعات کی روشنی میں کچھ اہمیت رکھتا ہے۔‘
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کس طرح ’دیگر مدعا علیہان، ہم کہتے ہیں، پھر جو کچھ ہوا اس میں ملوث ہو گئے۔‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایئرڈلی کلوز اور سٹوک آن ٹرینٹ، دونوں مقامات پر مقیم بخاری خاندان کے ارکان پر واضح ہو گیا کہ حسین کو ’خاموش‘ کرنے کی ضرورت ہے۔
تھامسن نے کہا کہ ’عام فہم کی بات ہے کہ انہیں (مسٹر حسین) کو ایک ملاقات کے لیے تیار کرنا تھا اور ان سے رقم کا وعدہ کیا گیا۔‘
’جب وہ ملنے کے لیے پہنچیں تو ان پر گھات لگا کر حملہ کیا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں امید تھی کہ جب انہیں عددی برتری کا سامنا کرنا پڑے تو شاید وہ فون ان کے حوالے کر دیں۔‘
’اور یہ کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو حسین کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے واقعی شدید نقصان پہنچایا جائے۔ آیا انہیں مستقل طور پر خاموش نہ کیا جائے جو ظاہر ہو جائے گا۔‘
کراؤن نے دعویٰ کیا کہ آٹھ فروری 2022 کو مہک بخاری کی دوست ٹاملن روڈ، لیسٹر کی رہائشی 29 سالہ ریکن کاروان کو معاملے میں شامل کیا گیا جنہوں نے ’رقم کے معاملے پر ثاقب حسین کے ساتھ بات چیت‘ میں مدد کی۔
اس کے علاوہ مبینہ طور پر22 سالہ رئیس جمال جو پہلے لنگڈیل کلوز، لافبرو میں رہتے ملوث تھے۔ ان کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے الوم راک روڈ، برمنگھم کی 23 سالہ نتاشا اختر سمیت دوسروں کو کام کے لیے’بھرتی‘ کیا۔
اس کے علاوہ لٹل مور کلوز کے 23 سالہ صناف غلام مصطفیٰ اور کیتھرین سٹریٹ کے 28 سالہ امیر جمال اور برے بروک روڈ کے رہائشی 21 سالہ محمد پٹیل بھی ملوث ہیں۔ تمام لوگوں کا تعلق لیسٹر کے علاقے سے ہے۔
آٹھوں مدعا علیہان پر دونوں مردوں کے قتل عمد کا الزام ہے۔ ان پر دو لوگوں کو بلا ارادہ قتل کرنے کا بھی الزام ہے لیکن وہ کوئی غلط کام کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
اس مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔
© The Independent