جنین آپریشن میں نو اموات: 20 برسوں میں بڑی اسرائیلی کارروائی

بکتر بند گاڑیوں، فوج کے بلڈوزر  اور ڈرون کے ذریعے جاری اس آپریشن میں نو فلسطینیوں کی اموات کے بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ رابطے معطل کرتے ہوئے ’اپنے عوام کے لیے بین الاقوامی تحفظ‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیلی فوج کی جانب سے پیر کو بڑے پیمانے پر شروع کی گئیں ’انسداد دہشت گردی کارروائیوں‘ کے دوران اب تک نو فلسطینیوں کی اموات ہوچکی ہیں۔

اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے دور حکومت میں ہونے والے اس آپریشن میں بکتر بند گاڑیوں، فوج کے بلڈوزر، ہیلی کاپٹرز اور ڈرون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ آپریشن مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً 20 برسوں کے دوران سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ایک ہے، جس میں اسرائیل نے جنین شہر کو ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔

جنین کے ڈپٹی گورنر کمال ابو الروب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کو علی الصبح آپریشن کے آغاز کے بعد سے جنین کیمپ سے تقریباً تین ہزار افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہوچکے ہیں۔

اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا کہ تقریباً 18 ہزار کی آبادی پر مشتمل شہر اور اس سے ملحقہ پناہ گزین کیمپ میں فائرنگ کا تبادلہ اور دھماکے ہوئے جبکہ فلسطینیوں نے اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کیا اور دھماکوں اور جلتی ہوئی رکاوٹوں سے نکلنے والے دھوئیں نے آسمان سیاہ کر دیا۔

جنین میں فلسطینی ہلال احمر کے ڈائریکٹر محمود السعدی نے کہا: ’فضا سے بمباری اور زمین سے حملے ہو رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’کئی گھروں اور مقامات پر بمباری کی گئی ہے۔ ہر طرف سے دھواں اٹھ رہا ہے۔‘

فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں نو اموات ہوئیں اور 100 کے قریب افراد زخمی ہیں، جن میں سے 20 کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ تعداد دو ہفتے قبل جنین میں اسرائیلی حملے میں ہونے والی سات سے تجاوز کر گئی ہے، جس کے دوران ہیلی کاپٹر سے میزائل فائر کیا گیا تھا۔

’آپریشن میں گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں اور کئی دن بھی‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ پیر کو شروع کیے گئے اس آپریشن میں ’بریگیڈ سائز‘ یعنی ایک سے دو ہزار فوجی شامل ہیں اور اس آپریشن کا مقصد ’کیمپ سے متعلق محفوظ پناہ گاہ کے تاثر کو ختم کرنا ہے۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ جب تک ضروری ہوگا، یہ آپریشن جاری رہ سکتا ہے اور فوجیں طویل مدت تک وہاں رہ سکتی ہیں۔ ’اس میں گھنٹوں بھی لگ سکتے ہیں اور کئی دن بھی۔ ہم نے اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔‘

اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننے والا یہ کیمپ 70 سال قبل 1948 کی جنگ کے بعد پناہ گزینوں کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو اسرائیل کے مطابق حماس، اسلامی جہاد اور فتح سمیت دیگر فسلطینی گروپوں کا مرکز ہے۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ انہوں نے اس کیمپ سے ایک دیسی ساختہ راکٹ لانچر برآمد کیا اور ہتھیار بنانے اور دھماکہ خیز مواد ذخیرہ کرنے کی ایک تنصیب کو نشانہ بنایا جس میں سینکڑوں آلات کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور استعمال کے لیے تیار دیگر آلات بھی تھے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے کہا ہے کہ ان کی افواج ’اپنے دشمنوں کے طرز عمل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں‘ اور دفاعی سٹیبلشمنٹ ’ہر صورت حال کے لیے تیار‘ ہے۔

دوسری جانب روئٹرز کے مطابق مغربی کنارے میں سرگرم حماس کے رہنما صالح العروری نے اقصیٰ ٹی وی کو بتایا کہ جنین میں جنگجوؤں کو چاہیے کہ اسرائیلی فوجیوں کو پکڑنے کی کوشش کریں۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے جنگجو ہر جگہ سے اٹھیں گے اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ نیا جنگجو کہاں سے آئے گا۔‘

’کھلی جنگ‘

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی افواج ’جنین میں دہشت گردوں کے ٹھکانے‘ میں ’کمانڈ سینٹرز کو تباہ کرکے اسلحہ قبضے میں لے رہی ہیں۔‘

دوسری جانب فلسطین کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو ’جنین کے عوام کے خلاف کھلی جنگ‘ قرار دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ رابطے معطل کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ’اپنے عوام کے لیے بین الاقوامی تحفظ‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

عرب لیگ نے کہا کہ وہ منگل کو اس صورت حال پر ایک ہنگامی اجلاس بلائے گی جس میں ’جنین پر اسرائیلی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے عرب دنیا کے متحرک ہونے‘ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

اسی طرح ہمسایہ ملک اردن نے اسرائیل کی ان کارروائیوں کو ’بین الاقوامی انسانی قوانین کی واضح خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے جب کہ متحدہ عرب امارات نے ’فلسطینی عوام کے خلاف بار بار اور بڑھتی ہوئی مہمات کو فوری طور پر روکنے‘ پر زور دیا ہے۔

دوسری جانب امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ وہ جنین کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شہریوں کی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔

اقوام متحدہ میں مشرق وسطیٰ کے مندوب ٹور وینس لینڈ نے کہا کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی کو یقینی بنانے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا