پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے40 سالہ محمد ارشد آفریدی نے باڑہ تحصیل کے دفتر پر ’دہشت گردوں‘ کے حملے کے دوران زخمی ہونے کے باوجود ایک حملہ آور سے بندوق چھین لی اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔
20 جولائی کے اس واقعے میں تحصیل باڑہ کمپاونڈ کے گیٹ پر حملے میں چار پولیس اہلکار مارے گئے تھے جب کہ آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کے دوران خودکش حملہ آور سے بندوق چھن جانے کے بعد حملہ آور نے خود کو کمپاؤنڈ کے گیٹ پر ہی دھماکہ خیز مواد سے سے اڑا لیا تھا جس سے تحصیل کمپاونڈ میں لوگ محفوظ رہے۔
ڈپٹی کمشنر خیبر عبدالناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ضلعی انتظامیہ نے محمد ارشد آفریدی کو سول ایوارڈ دینے کے لیے حکومت کو سفارشات بھیجی ہیں تاکہ ان کی بہادری اور حب الوطنی کو سراہا جا سکے۔‘
ضلعی پولیس کے سربراہ ڈی پی او سلیم عباس کلاچی سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’خیبر پولیس فورس ان کی بہادری کو سلام پیش کرتی ہے محمد ارشد اس مٹی کے بہادر سپاہی اور رکھوالے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہسپتال میں زیر علاج ارشد آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کو اپنے ذاتی کام کے سلسلے میں باڑہ تحصیل کے دفتر میں موجود تھے جب شدت پسندوں نے حملہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تحصیل دفتر کے مرکزی دروازے کے قریب ہی ایک کمرے میں موجود تھے کہ ایک حملہ آور نے وہاں پہنچ کر فائرنگ شروع کر دی جس میں ایک گولی ان کے بازو میں بھی لگی۔
ارشد آفریدی نے کہتے ہیں کہ انھوں نے سوچا کہ ’اب تو بالکل نہیں بچنا، اگر باہر لوگ (حملہ آور) زیادہ ہیں تو وہ دوبارہ بھی اسی کمرے میں آ سکتے ہیں اس لیے کھڑا ہوا اور دوسرا حملہ آور جو گیٹ پر آیا اس پر چھلانگ لگا کر بندوق پکڑ لی اور اس دوران حملہ آور کے ساتھ زبانی تکرار بھی ہوئی۔‘
ارشد آفریدی بتاتے ہیں کہ انہوں نے حملہ آور سے دو باتیں کیں کہ ’ہم تو مظلوم ہیں، ہمیں کیوں گولی مار رہے ہو ہمیں نہ مارو۔ اللہ نے ہمت دی اور بندوق چھینی لی جیسے ہی بندوق چھینی تو حملہ آور نے اپنی دائیں آستین سے بم کا لال بٹن نکال لیا۔ جس پر میں وہاں سے بھاگ گیا۔‘
ارشد آفریدی بتاتے ہیں کہ جب انہیں پتہ چلا کہ جس کمرے کے باہر انہوں نے حملہ آور سے بندوق چھینی تھی اس میں موجود 12 سے 15 اہلکار بچ گئے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔