لاہور پولیس نے ایک تین سالہ بچے کو مبینہ طور پر تشدد کے بعد قتل کرنے والے سوتیلے باپ کو گرفتار کر لیا۔
واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق پاکتپن کی رہائشی اور تین بچوں کی ماں نے خاوند کے فوت ہونے پر ملزم سے دوسری شادی کر لی اور لاہور کے علاقے شیرا کوٹ میں رہنے لگی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ نکاح کے دو دن بعد ہی ملزم نے تینوں بچوں پر تشدد شروع کردیا۔ 24 جولائی کو ماں نے اپنے سابقہ مرحوم شوہر کے بھائی ہدایت اللہ کو فون کیا کہ ان کا تین سالہ بیٹا چاند علی بیماری سے فوت ہو چکا ہے لہٰذا وہ اس کی تدفین لاہور میں ہی کرنے لگے ہیں۔ جواباَ انہیں کہا گیا وہ اپنے بھتیجے کو خود دفنانا چاہتے ہیں لہٰذا وہ لاش پاکپتن لے آئیں۔
ایف آئی آر کے مطابق اس پر خاتون نے فون بند کر دیا اور شام کو بچے کی لاش اور اپنی دو بچیوں کے ساتھ مرحوم خاوند کے گھر جانے کی بجائے اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔
رات گئے ہدایت اللہ کو کسی محلے دار نے اطلاع دی تو وہ قریبی قبرستان پہنچے اور دیکھا کہ وہ اکیلے ہی بچے کو دفن کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ایس پی آپریشنز اقبال ٹاؤن عثمان ٹیپو کے بقول ’پولیس ہیلپ لائن 15 پر ایک کال موصول ہوئی کہ ایک خاتون بچے کو دفن کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور شبہ ہے بچے کو قتل کیا گیا ہے۔
’جب پولیس موقع پر پہنچی اور کال کرنے والے عطا اللہ کو فون کیا تو ان کا فون بند ملا، جس پر ہمیں شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔‘
عثمان ٹیپو نے مزید بتایا کہ معلومات کی بنیاد پر لاہور کے علاقے شیرا کوٹ میں چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک بچہ فوت ہوا ہے جس کی تدفین کے لیے گھر والے پاکپتن گئے ہیں۔
’پولیس نے پاکپتن جا کر جب معلومات حاصل کیں تو کال کرنے والے عطا اللہ کا پتہ چل گیا۔‘
ایس پی آپریشنز کے مطابق عطا اللہ نے پولیس سے گفتگو میں کہا کہ بچے کی موت طبی نہیں بلکہ اسے سوتیلے باپ نے مبینہ طور پر تشدد کر کے قتل کیا۔
ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ انہیں ان کی بھتیجی سے پتہ چلا کہ عثمان نے ان کی ماں سے شادی کے دو دن بعد ہی تشدد شروع کر دیا تھا۔
’وہ بچوں کو بجلی کی تار سے مارتا تھا۔ جس بچے کا نام سگے باپ نے پیار سے چاند رکھا، بے رحم سوتیلے باپ نے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔‘
ایس پی کے مطابق، ’بچیوں سے معلوم ہوا کہ ملزم نے تین سالہ معصوم بچے کو بستر پر پیشاب کرنے کی وجہ سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
’اس دن اسے بخار بھی تھا۔ معصوم بچہ شدید تشدد برداشت نہ کر پایا اور چیختے چلاتے کچھ دیر بعد دم توڑ گیا۔ بچیاں بھائی کی جان جانے کا دل دہلا دینے والا منظر دیکھ کر صدمے سے دوچار ہیں اور سوتیلے باپ کے خوف میں مبتلا ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بچے کی والدہ نہ صرف جرم پر خاموش رہیں بلکہ لاش کو رات کے اندھیرے میں دفنانے کی کوشش بھی کی۔
عطا اللہ نے پولیس کو بتایا بھائی کی موت کے بعد وہ بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ جب ان کی بھابھی نے دوسری شادی کی تو انہوں نے بچے حوالے کرنے کا کہا مگر انہوں نے بات نہیں مانی۔
عطا اللہ کے مطابق بچے کے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں زخموں کے نشان نہیں تھے۔
ایس پی عثمان ٹیپو کے مطابق ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے، تاہم خاتون کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ مقتول کا ابتدائی پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے جس میں تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں تاہم تفصیلی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔ ’ملزم نے اقبال جرم کر لیا ہے۔ اس نے اقرار کیا کہ وہ تینوں بچوں پر شدید تشدد کرتا تھا کیونکہ اسے وہ بچے پسند نہیں تھے۔
’ملزم نے بتایا کہ اس نے بستر پر پیشاب کرنے کی وجہ سے بچے پر تشدد کیا جس سے وہ جان سے چلا گیا۔ جرم چھپانے کے لیے کوشش کی کہ لاہور میں ہی اسے دفن کریں تاکہ کسی کو علم نہ ہو سکے۔‘
پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال سات ماہ میں لاہور کے مختلف علاقوں میں نو کم سن بچوں کا قتل ہوا۔
دو بچوں کے قتل میں سگے باپ ملزم نکلے۔ ایک ہنجر وال کے علاقے میں تین سالہ بیٹی جبکہ دوسرا گوالمنڈی کے علاقہ میں کم سن اذان کے قتل میں باپ ملزم نکلا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق گجر پورہ میں دادا نے چھ سالہ پوتے کی جان لینے کا اعتراف کیا ہے جبکہ رائیونڈ میں دو اور فیکٹری ایریا، نشتر کالونی اور کاہنہ میں تین کم سن بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔
ایس پی عثمان ٹیپو کے مطابق: ’سات بچوں کے قتل کے مختلف مقدمات میں ملوث ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں جبکہ دو مقدمات کی تفتیش ابھی جاری ہے۔‘