امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر منگل کو 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج میں ’ردوبدل کی کوششوں‘ پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے جو دوبارہ وائٹ ہاؤس میں واپسی کی مہم کے دوران سابق صدر کے لیے اب تک کا سب سے سنگین قانونی خطرہ ہے۔
مارچ کے بعد سے 77 سالہ ٹرمپ پر یہ تیسری مجرمانہ فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ ان پر سازش کے تین الزامات اور رکاوٹ ڈالنے کا ایک الزام عائد کیا گیا۔
2024 کے صدارتی انتخابات میں ریپبلیکن پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے والے ٹرمپ کے خلاف آئندہ برس فلوریڈا میں خفیہ دستاویزات کو نامناسب انداز میں رکھنے کا مقدمہ چلایا جانا ابھی باقی۔
نئے الزامات، جن میں سے دو میں زیادہ سے زیادہ سزائیں 20 سال قید ہے، سے اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ ٹرمپ مزید قانونی کارروائیوں میں الجھ جائیں گے وہ بھی اس وقت جب ایک تلخ اور تفرقہ انگیز صدارتی مہم عروج پر ہے۔
سپیشل کونسل جیک سمتھ کی تحقیقات میں ٹرمپ پر امریکہ کو دھوکہ دینے اور سرکاری کارروائی - چھ جنوری 2021 کو ڈیموکریٹ جو بائیڈن کی انتخابی کامیابی کی تصدیق کے لیے منعقد ہونے والے اجلاس میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
پینتالیس صفحات پر مشتمل فرد جرم میں ٹرمپ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے جھوٹے دعووں کے ذریعے امریکی ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی۔
واشنگٹن میں گرینڈ جیوری کی جانب سے عائد کی گئی فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ تین نومبر 2020 کو ہونے والے انتخابات کے دن کے فوراً بعد مدعا علیہ نے اپنے مجرمانہ منصوبے کا آغاز کیا۔
تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ ’اس سازش کا مقصد جان بوجھ کر انتخابی دھاندلی کے جھوٹے دعوے کر کے 2020 کے صدارتی انتخابات کے جائز نتائج کو تبدیل کرنا تھا۔‘
ہیگ میں جنگی جرائم کے سابق پراسیکیوٹر سمتھ نے کہا کہ ’چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ امریکی جمہوریت پر ایک غیر معمولی حملہ تھا۔‘
سمتھ نے صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کو جھوٹ سے ہوا دی گئی تھی۔‘
’مدعا علیہ کے جھوٹ نے امریکی حکومت کے بنیادی کام یعنی صدارتی انتخابات کے نتائج جمع کرنے، گننے اور تصدیق کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرد جرم میں الزام لگایا گیا ہے کہ اس منصوبے کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ اس وقت کے نائب صدر مائیک پینس نے چھ جنوری کو ہونے والے مشترکہ اجلاس میں پریزائیڈنگ افسر کی حیثیت سے اپنے کردار کا استعمال کرتے ہوئے کئی ریاستوں کے ووٹ نکالنے تھے۔
پینس نے بالآخر انکار کر دیا اور ایک عوامی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ آئین انہیں یہ اختیار دیتا ہے۔
بعد ازاں جب ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا، جہاں پینس چھپے ہوئے تھے، ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ ان کے نائب صدر میں ’وہ کرنے کی ہمت نہیں تھی جو کرنا چاہیے تھا۔‘
ٹرمپ پر عائد تاریخی فرد جرم پر منگل کو وائٹ ہاوس کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ڈیلاویئر میں ساحل سمندر پر چھٹیاں گزار رہے جو بائیڈن، جو اگلے سال دوبارہ انتخاب کے امیدوار ہیں، نے فلم ’اوپن ہائیمر‘ دیکھنے سے پہلے خاتون اول جل بائیڈن کے ساتھ کھانا کھایا۔
تاہم، ٹرمپ کی انتخابی مہم نے ایک سخت بیان جاری کیا، جس میں ان کے مقدمے کا موازنہ ’1930 کی دہائی میں نازی جرمنی‘ سے کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے ’بہت سے انتہائی قابل وکلا کے مشورے‘ پر عمل کیا ہے۔
فرد جرم میں چھ شریک سازش کاروں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن کسی کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور ٹرمپ، جنہیں جمعرات کو پیش ہونا ہے، واحد نامزد مدعا علیہ ہیں۔
توقع ہے کہ اس کیس کی سماعت سابق ڈیموکریٹک صدر براک اوباما کی جانب سے مقرر کردہ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج تانیا چٹکن کریں گی۔