آخر کار ’سجناں نوں قید بول گئی۔‘
تین سال کی سزا جو کہ شاید ہمارے حساب سے ڈیڑھ سال بنتی ہے کیونکہ جیل کی رات بھی ایک دن شمار کی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ منطقی انجام جو کمپنی سے معاہدہ کرنے والے ہر شخص کا ہوتا ہے۔
مجھے چیئرمین پی ٹی آئی کی حلف برداری پہ لکھا گیا اپنا ہی کالم یاد آرہا تھا جس میں میں نے لکھا تھا کہ یوم قیادت سے یوم قیامت تک اور تخت سے تختے تک کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔
مگر یہ فاصلہ اتنا کم ہو گا یہ اس وقت نہیں سوچا تھا۔ شیروانی کی جیب سے گھبرا گھبرا کے چشمہ نکالتے خان صاحب بھی شاید یہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی اتنا بے وفا بھی ہو سکتا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ سے بنا کے رکھنا، شاید پاکستانی بہوؤں کے لیے تو ممکن ہو مگر گوشت پوست کا بنا عام سیاستدان، خواہ وہ کس قدر ضمیر فروش کیوں نہ ہو، اپنے سیاسی کیرئیر میں کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔
خطا کیا ہوتی ہے؟ یہ اگر سیاستدانوں کو سمجھ آجائے تو کیا ہی بات ہے مگر بقول شخصے جب یہ سیاست کی اے بی سی ڈی پڑھ کے ای ایف تک پہنچتے ہیں تو ساری بساط لپٹ جاتی ہے۔
اگلے تین لفظ ان کوڑھ مغزوں کو کسی طرح یاد نہیں ہوتے۔ یاد ہو بھی جائیں تو سمجھ ہی نہیں پاتے اور پھر اسی طرح بغل میں بستہ دبائے، چٹائی لوٹا لیے جیل کا رخ کرتے ہیں۔
وہی جیل جہاں حبس بھری راتیں، موٹے موٹے مچھر، چارپائی میں رینگتے کھٹمل اور روں روں چلتا پنکھا ہوتا ہے۔
شنید ہے کہ اے سی تو خان صاحب نے اپنے دور حکومت میں نکلوا دیے تھے۔ چلیں کوئی بات نہیں ڈیڑھ برس ہی تو ہیں، یوں بھی چند مہینے میں موسم سرما آجائے گا۔
نیرنگی زمانہ پہ ہنسی آتی ہے۔ چند ماہ پہلے تک خان صاحب ریڈ لائن تھے مگر پیارے بچو! فلم اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔
فلم کا کمزور ہیرو، تگڑے ولن کو مار گراتا ہے۔ حقیقت میں ولن ہی فاتح رہتا ہے، ہیرو مار کھا کے ایک طرف ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ کی جنگ اخلاقی تھی تو ولن جتنا ظلم کرے گا اسی قدر شکست خوردہ ہو گا لیکن اگر آپ ’روند‘ مار کے میدان میں گھسے تھے تو پھر اب آپ کسی اخلاقی پلیٹ فارم پہ چڑھ کے اپنا قد نہیں بڑھا سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی، عملی طور پہ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے۔ باقی دونوں جماعتیں پہلے ہی ادھیڑی جا چکی ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں، نہیں ہوتے ہیں، کب ہوتے ہیں؟ کچھ خبر نہیں۔
انتخابات اگر ہوئے بھی تو کوئی ایک پارٹی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ ایک بار پھر وہی جوڑ توڑ ہو گی، وہی لوٹے وہی الیکٹ ایبلز، وہی کوتاہ بین کلف لگے کرتے اور شیفون کے دوپٹے اوڑھے سرکس کے مسخروں کی طرح جمہوریت کا مذاق اڑانے کو لا کر بٹھا دیے جائیں گے۔
ہے تو یہ سب خاصا تاریک منظر نامہ مگر بادل کے کنارے پہ ایک نقرئی حاشیہ بھی ہے۔ اب ملک کے بچے بچے کو ساری صورت حال کی سمجھ آگئی ہے۔
سرگوشیوں میں ہونے والی باتیں باقاعدہ تسلیم شدہ اصطلاحات کی مدد سے مین سٹریم میڈیا پہ دہرائی جا رہی ہیں۔
حد یہ کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے کردار کو دیکھ رہی ہے اور اب یہ بات کھل کے سامنے آ گئی ہے کہ ایسے کہانی آگے نہیں چلے گی۔ کردار بدلنا ہو گا، سوچ بدلنی ہو گی۔
ملک ہوتے ہیں تو ادارے ہوتے ہیں۔ عوام کی سیاسی بصیرت چھین لی جائے اور ان کو ملک اور ریاست سے مکمل طور پہ بددل کر دیا جائے تب ملک نہیں رہتے اور ملک نہ رہیں تو ادارے بھی نہیں رہتے۔ ملک رہنا چاہیے۔
بس اس سیاہ بادل کا نقرئی حاشیہ یہ ہی ہے کہ حساس لوگ اب ہی یہ محسوس کر لیں گے ورنہ یہ ہی کچہری ہے اور یہ ہی تانگہ ہے، سواری بدلتی رہے گی، تانگہ ہر بار خالی لوٹتا رہے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔