پاکستان میں ریسٹورانٹس کو مینو پر کیلوریز لکھنا ضروری: حکام

وزیراعظم پاکستان کے سٹریٹجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ کے مطابق تمام ریسٹورانٹس اپنے مینو میں کیلوریز لکھیں گے، اب عوام یہ جان سکیں گے کہ روزانہ کھانے کی کتنی مقدار ہونی چاہیئے۔

23 مارچ 2023، کراچی کے ایک ریسٹورانٹ سے لوگ خریداری کرتے ہوئے(اے ایف پی/آصف حسن)

وزیراعظم پاکستان کے سٹریٹجک ریفامر یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی نے اعلان کیا ہے کہ پورے پاکستان میں تمام ریسٹورانٹس کے مینو میں کیلوریز درج کرنے کے لیے ’صحت مند غذا تندرستی سدا‘ پروجیکٹ لانچ کر دیا گیا ہے۔

سلمان صوفی نے اپنی ایک ٹویٹ میں اعلان: ’ایک صحت مند مستقبل کا آغاز، پورے پاکستان سے تمام فوڈ اتھارٹیز نے صحت مند غذا تندرستی سدا پراجیکٹ لانچ کر دیا ہے۔ تمام ریسٹورانٹس اپنے مینو میں کیلوریز لکھیں گے۔ اب عوام یہ جان سکیں گے کہ روزانہ کھانے کی کتنی مقدار ہونی چاہیئے۔ اس سے ذیابیطس اور دل کے امراض میں نمایاں کمی ہو گی۔‘

وزیر اعظم پاکستان کے سٹریٹجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ نے مزید لکھا: ٹرانس فیٹ کو صرف دو فیصد تک محدود کیا جا رہا ہے۔ پیکجڈ کھانوں کی اجزا کو عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق پیکٹ پر لکھا جائے گا۔ یہ قدم ایک صحتمند پاکستان کی بنیاد بنے گا۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آپریشنز پنجاب فوڈ اتھارٹی آصف علی ڈوگر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دراصل یہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا اقدام ہے جس کا اطلاق چاروں صوبوں میں ہو گا۔‘

’پنجاب میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل راجہ جہانگیر انور اس کو لیڈ کر رہے ہیں اور کل لاہور میں ہم نے اس منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہمارا پہلا ہدف یہ ہے کہ کیٹیگری اے کے ریسٹورانٹس جن میں بڑی بڑی فوڈ چینز، ایم ایم عالم روڈ اور دیگر پوش علاقوں کے ریستوران شامل ہیں، یہاں پہلے فیز میں ہم اس پالیسی کا اطلاق کروائیں گے اور ان کے مینیو پر کیلوریز کاؤنٹ تحریر کروائیں گے۔‘

ان کے مطابق ’یہ منصوبہ ویسے تو ایک سال میں مکمل ہو گا لیکن لاہور میں ہم اسے تین مال میں مکمل کریں گے۔ اور ان تین مہینوں میں ہماری ترجیح کیٹیگری ون کے ریسٹورانٹس ہیں۔‘

ریسٹورانٹس مالکان کیلوریز کیسے شمار کریں گے؟

اس حوالے سے آصف علی ڈوگر کا کہنا تھا: ’ریسٹورانٹس مالکان کا پہلا چیلنج ہی یہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے فوڈ ٹیکنالوجسٹ یا نیوٹرشنسٹ رکھنا پڑے گا لیکن فوڈ اتھارٹی کا اپنا ایک غذائی ماہرین کا ونگ ہے جس میں 50 سے زائد غذائی ماہرین کام کر رہے ہیں۔‘

’سٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ میں طے یہ ہوا کہ ہم ریسٹورانٹس کو یہ معاونت مفت مہیا کریں گے۔ اس وقت ہم ریگولیشن بنانے کے فیز میں ہیں جس کے تحت ہم یہ حساب لگائیں گے کہ عموماً ریسٹورانٹس میں جو کھانے کی ڈشز ہوتی ہیں جیسے کسی نے کڑھائی کھانی ہے یا برگر کھانا ہے تو ان میں کیلوریز کتنی ہوتی ہیں۔

’یہ ریگولیشنز بنا کر ہم تمام سٹیک ہولڈرز کو نوٹیفائی کریں گے اور ان کے مینو میں کھانوں کے حساب سے ان کی کیلوریز تحریر کر دی جائیں گی۔‘

کیا لاہور کے دیسی کھابوں کی کیلوریز کو بھی کاؤنٹ کیا جائے گا؟

اس بارے میں ایڈیشنل ڈی جی کا کہنا تھا: ’ہمارے ریڈار پر ہر قسم کے ریسٹورانٹس ہیں دیسی ریسٹورانٹس جو اندرون لاہور یا فوڈ سٹریٹ یا دیگر دیسی کھانوں کے ریستوران ہیں وہ ہماری کیٹیگری بی میں آتے ہیں ان کو ہم دوسرے فیز میں دیکھیں گے۔‘

ریسٹورانٹس مالکان کا ردعمل کیا تھا؟

اس پر آصف علی ڈوگر کا کہنا تھا کہ ’لاہور ریسٹورانٹس ایسوسی ایشن اور پنجاب ریسٹورانٹس ایسوسی ایشن کو آن بورڈ لیا ہے۔ ان کو پہلا اعتراض تھا کہ ان کے گاہک کم ہو جائیں گے دوسرا اعتراض تھا کہ انہیں غذائی ماہرین کو رکھنا پڑے گا ہمیں کھانوں کے ٹیسٹ کروانے پڑیں گے۔

’اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے انہیں یہ تعاون دیا ہے کہ غذائی ماہرین انہیں ہم دے دیں گے باقی ایک ایپلی کیشن بھی موجود ہے جس پر ہمارا آئی ٹی کا شعبہ اس پر کام کر دے گا۔ ہم ان کے مینیو اکٹھے کریں گے اور ہماری ٹیم اس کی اسیسمنٹ کر کے ان کو واپس دے دی گی اور کوشش کریں گے کہ ان کے لیے چیلنج کم سے کم ہو۔‘

ان کے مطابق ’لیکن ان کا دوسرا خدشہ کہ گاہک کم ہو جائیں گے یہ ان کا خدشہ موجود ہے کیونکہ ویسے بھی جب کھانے کے آگے لکھا ہو گا کہ کتنی کیلوریز ہیں تو بندہ ویسے ہی سوچ میں پڑ جائے گا کہ میں کھاؤں یا نہ کھاؤں۔‘

 ریسٹورانٹس مالکان کیا کہتے ہیں؟

لاہور کے ایک معروف ریسٹورانٹ کے مالک جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات تو کی مگر وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کے مطابق: ’اس منصوبے میں بہت سے مسائل ہیں۔ پوری دنیا میں ہم نے سفر کیا اور ملک ملک کے کھانے کھائے لیکن ہم نے ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں جوس بارز یا ایسے ریسٹورانٹس جو صحت مند کھانا بیچتے ہیں وہاں کیلوریز لکھنے کا کانسیپٹ ہے، قانون وہاں بھی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو سٹریٹ فوڈ ہے یا مثال کے طور پر پھجے کے پائے ہیں، ان کو تو شاید معلوم بھی نہیں ہوگا کہ کیلوریز کیا ہیں وہ کہاں سے لکھیں گے؟‘

مذکورہ ریسٹورانٹ مالک کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ملک میں کیلوریز والا کلچر ہی نہیں ہے خاص طور پر پنجاب کا کلچر تو’کھلا ڈلا‘ کھانے والا ہے۔ اس میں بریانیاں اور تیل میں تلی چیزیں شامل ہیں۔ میرے خیال میں کیلوریزلکھنی چاہیے لیکن ہر کسی پر زبردستی نہیں کرنی چاہیے ویسے بھی پاکستان میں کاروبار کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے اور اس پر نئی نئی پالیسیاں بنا دی جاتی ہیں۔‘

مینیو میں جتنی کیلوریز لکھی گئی ہیں کیا وہ بالکل صحیح ہیں؟

اس حوالے سے ہم نے ایک غذائی ماہر زینب گوندل سے بھی بات کی۔ زینب کہتی ہیں: ’ہم جب کیلوریز کاؤنٹ کرتے ہیں اس میں میکرو اور مائیکرو لیول پر دیکھتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنا فیٹ ڈل رہا ہے کتنا مکھن ڈالا جا رہا ہے یہ سب گن کر ہم لکھیں گے۔‘

زینب کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ ریسٹورانٹس کھانا کھانے جاتے ہیں ان میں سے 90 فیصد اپنی صحت کا خیال نہ رکھتے ہوئے جاتے ہیں۔ باقی جو دس فیصد اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے باہر کھانا کھاتے ہیں وہ آرڈر ہی ایسی چیزیں کرتے ہیں جن میں کیلوریز کم ہوں جیسے باربی کیو یا بغیر ساس کے سٹیکس وغیرہ۔

ان کے مطابق ’ہر ڈش کے لیے ہر بار یہی مقدار نہیں ہو سکتی کئی بار کھانا بناتے کچھ مختلف ہو جاتا ہے، جیسے مکھن زیادہ ڈالنا پڑ جاتا ہے جس کا مطلب کھانے میں فیٹ بڑھ گیا۔‘

زینب کا کہنا ہے کہ ’کئی مرتبہ پاستا کی ریشو کم کر دیتے ہیں جس کامطلب کاربوہائڈریٹس کم ہو جاتے ہیں۔ کئی بار گوشت کم یا زیادہ ڈل جاتا ہے۔ ریسٹورانٹس جتنا بڑا ہو کبھی کبھی کھانے کی دی گئی مقدار کم یا زیادہ ہو جاتی ہے تو اس میں کیلوریز کا کاؤنٹ خراب ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا متعلقہ حکام کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت