’1950 کی دہائی کے اوائل میں ایرانی نژاد حیدرآبادی تاجر آغا حسین ضابط نے تاریخی چارمینار سے چند سو میٹر کی دوری پر واقع مدینہ ہوٹل میں ایرانی حلیم بنا کر بیچنی شروع کی۔ تب آٹھ آنے یا پچاس پیسے میں اتنی حلیم ملتی تھی کہ انسان کا شکم سیر ہوتا تھا۔
’جب لوگ حلیم کو بڑے ہی شوق سے کھانے لگے تو دوسرے ریستوران مالکان نے بھی یہ لذیذ ضیافت بنا کر گاہکوں کی خدمت میں پیش کرنا شروع کی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ شہر حیدرآباد کی کوئی سڑک یا گلی کوچہ ایسا نہیں جہاں آپ کو رمضان میں حلیم کے دیگیں نظر نہ آئیں۔ دوسرے الفاظ میں کہوں تو ہمارے یہاں اب بغیر حلیم کے رمضان کا تصور بھی محال ہے۔‘
حیدرآباد دکن کے ممتاز مورخ اور مصنف علامہ اعجاز فرخ کے مطابق یہ بھارت کے اس جنوبی شہر میں حلیم کے متعارف ہونے اور اس کی مانگ و کاروبار کے لحاظ سے عروج پر پہنچنے کی مختصر کہانی ہے۔
حیدرآباد کے چارمینار علاقے میں جس جگہ پر آغا حسین ضابط کا ہوٹل واقع تھا اس کا نام پتھر گھٹی ہے اور جس عمارت میں قائم تھا اس کا نام ’مدینہ بلڈنگ‘ ہے جس کی اپنی خوبصورت اور دلچسپ تاریخ ہے۔
حیدرآباد دکن کے آخری نظام نواب میر عثمان علی خان نے مدینہ بلڈنگ 1944 کے آس پاس تعمیر کروائی تھی اور اس کا کرایہ 1960 کی دہائی تک مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی ترقی اور رکھ رکھاؤ کے لیے سعودی عرب جاتا رہا۔
گذشتہ سات دہائیوں کے دوران جہاں مختلف مصالحہ جات کے کثرت سے استعمال اور نت نئے تجربوں سے حلیم کے ذائقے میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے وہیں نہ صرف مدینہ ہوٹل کا رنگ و روپ بلکہ اس کے مالکان بھی تبدیل ہوئے ہیں۔
اب مدینہ ہوٹل اتنا وسیع و عریض نہیں ہے جتنا اس وقت تھا جب اس کا نظام دکن میر عثمان علی خان کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا تھا۔ تاہم عرب نژاد حیدرآبادی کاروباری گھرانہ ’جابری خاندان،‘ جس کے پاس اب اس ہوٹل کے مالکانہ حقوق ہیں، نے اسے دلہن کی طرح سجا رکھا ہے۔
رمضان اور حلیم لازم و ملزوم
علامہ اعجاز فرخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حلیم ایک ایرانی ڈش ہے اور لفظ ’حلیم‘ کا لغوی معنی ’نرم‘ یا ’ملائم‘ ہے۔
’چونکہ یہ ڈش بہت ہی نرم اور ملائم ہوتی ہے اس وجہ سے حلیم کہلاتی ہے۔ حیدرآباد کی حلیم ایرانی حلیم کے مقابلے میں بہت تیکھی ہوتی ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مرچی اور دیگر مصالحوں کا ذوق زیادہ ہے۔ ایران میں بننے والی حلیم میں اتنے مصالحے نہیں ڈالے جاتے جتنے مصالحے یہاں بننے والی حلیم میں ڈالے جاتے ہیں۔‘
علامہ اعجاز کے مطابق حلیم ایک مقوی یا قوت دینے والی ڈش ہے یہی وجہ ہے کہ روزے دار اس کو افطاری کے وقت کھانا پسند کرتے ہیں۔
’اس میں استعمال ہونے والی تین اہم چیزیں جیسے گوشت، گیہوں اور اصلی گھی سبھی مقوی ہیں۔ اب رمضان اور حلیم دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔‘
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر محمد سیف اللہ، جنہوں نے حیدرآبادی کھانوں پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حلیم رمضان میں اس لیے زیادہ کھائی جاتی ہے کیوں کہ یہ ایک آسانی سے اور جلد ہضم ہونے والی ڈش ہے۔
’حلیم میں استعمال ہونے والے گوشت پوری طرح سے گلے ہوتے ہیں۔ چوں کہ یہ ایک طاقت اور توانائی بخشنے والی ڈش ہے اس وجہ سے بھی اس کو رمضان میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ حلیم میں جو بنیادی چیزیں استعمال ہوتی ہیں جیسے گوشت اور گیہوں ان میں پروٹین کی مقدار اچھی خاصی ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر سیف اللہ نے دعویٰ کیا کہ حیدرآباد دکن میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو حلیم کھاتے ہیں جس کے نتیجے میں اب یہ ڈش کچھ جگہوں پر سال کے بارہ مہینے دستیاب رہنے لگی ہے۔
'یہاں پر آج کل کم از کم چار اقسام کی نان ویج حلیم بنتی ہے جس میں مٹن حلیم، چکن حلیم، بیف حلیم اور فش حلیم شامل ہیں۔ دنیا کے کسی بھی شہر میں اتنی حلیم نہیں کھائی جاتی جتنی حیدرآباد میں کھائی جاتی ہے۔ اس کاروبار سے ہر سال رمضان میں ہزاروں لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔‘
سابق پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر آنند راج ورما نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حیدرآباد میں جتنا انتظار مسلمانوں کو حلیم کھانے کا ہوتا ہے اس سے زیادہ ہندوؤں کو ہوتا ہے۔
’آپ کو ہر ایک ریستوران میں جتنے مسلمان اتنے ہندو بھی حلیم کھاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ میں خود حلیم بڑے شوق سے کھاتا ہوں۔ مسلمان دوست بھی بھیجتے رہتے ہیں۔
’یہاں کے ہندو اپنے مسلمان بھائیوں پر یقین کر کے ہی حلیم کھاتے ہیں۔ ریستوران والے خدانخواستہ پوٹلے (بھیڑ) کے گوشت کے ساتھ بڑا گوشت (بیف) بھی ملا سکتے ہیں۔ ہم اور آپ پہچان نہیں پائیں گے۔‘
آنند راج ورما کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں حلیم افطار کا لازمی جز بن رہی ہے اور ریستورانوں میں بھیڑ کا یہ عالم ہوتا ہے ان میں سے اکثر سحری تک کھلے رہتے ہیں۔
’آج سے دس بارہ سال پہلے حلیم صرف رمضان میں کھائی جاتی تھی لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔ اب کچھ ریستوران ایسے بھی ہیں جو سال کے بارہ مہینے حلیم بناتے ہیں۔
’ہر ایک ریستوران اپنی حلیم کو بالاتر بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر میرے ذائقے کے مطابق ہر حلیم میں انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے۔‘
ہریس سے حلیم تک
علامہ اعجاز فرخ کے مطابق حیدرآباد دکن میں حلیم سات دہائی پرانی ڈش ہے اور اس سے پہلے یہاں ایک زمانے میں عربی ڈش ’ہریس‘ بنتی تھی۔
’ہمارے ہاں حلیم سے پہلے اس جیسی ہی ایک ڈش ملتی تھی جس کا نام ہریس ہے۔ ہریس ایک بہت پرانی عربی ڈش ہے۔
’یہ ڈش یہاں ملازمت کے سلسلے میں آنے والے عرب شہریوں نے لائی تھی۔ ہریس میں گیہوں اور گوشت کا استعمال ہوتا تھا۔ یہاں عرب شہری جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں اس کو بارکس کہتے ہیں۔ وہاں ہریس بنتی اور بکتی بھی تھی۔‘
علامہ اعجاز نے بتایا کہ عرب شہریوں سے پہلے ایرانیوں کا حیدرآباد دکن آنا شروع ہوا تھا جس کی ایک وجہ یہ تھی شہر کی بنیاد رکھنے والے قطب شاہی حکمران ایرانی النسل تھے۔
’قطب شاہی عہد حکومت میں ہی ایرانیوں کا حیدرآباد آنا شروع ہوا تھا۔ ایرانیوں نے یہاں کے ذائقے کے مطابق ایرانی حلیم میں دیگر مصالحے جیسے شاہی زیرہ، دارچینی، لونگ، الائچی وغیرہ وغیرہ استعمال کرنے شروع کیے اور اس طرح یہاں یہ ڈش حیدرآبادی حلیم کہلائی جانے لگی جو ایران میں بننے والی حلیم سے ذائقے میں مختلف ہے۔‘
علامہ اعجاز نے بتایا کہ 1950 کی دہائی میں جب مدینہ ہوٹل کی حلیم بہت مشہور ہوئی تو یہ نزدیک میں واقع پیلس ہوٹل اور مکہ ہوٹل میں بھی بننے لگی۔
’اس زمانے میں بھیڑ کے گوشت کی بنتی تھی۔ پھر بکرے کے گوشت کی بننے لگی۔ آج کل تو گائے کے گوشت کی حلیم زیادہ فروخت ہوتی ہے کیوں کہ یہ بہت سستی ہوتی ہے۔‘
مرزا علی معروف بہ علی سروی کا تعلق آغا حسین ضابط کے خاندان سے ہے اور وہ حیدرآباد کے پاش علاقہ بنجارہ ہلز میں واقع مشہور ریستوران ’سروی‘ کے مالک ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ آغا حسین ضابط ہی تھے جنہوں نے حیدرآباد میں ایرانی حلیم، جو یہاں حیدرآبادی حلیم کے نام سے مشہور ہے، متعارف کرائی۔ پھر 1960 کی دہائی میں اچانک لوگوں کے اندر رمضان میں حلیم کھانے کا شوق بڑھ گیا جو اب ایک جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔‘
مرزا علی کہتے ہیں کہ حلیم ایک قوت بخش ڈش ہے جو ایران میں عاشورہ کے دن عزاداروں کو ’نذر امام حسین‘ کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔
’یہ روایت آج بھی ایران کے گلی کوچوں میں برقرار ہے۔ وہاں حلیم کی دیگیں عاشورہ کی رات تیار کر کے صبح میں عزاداروں کو نذر امام حسین کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔
’یہاں حیدرآباد میں ہم ایرانیوں کی دربار حسینی کے نام سے ایک قدیم مسجد ہے۔ اس میں بھی ہم نے عزاداروں کو حلیم پیش کرنے کی روایت برقرار رکھی ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے پانچ چھ دہائیوں سے جاری ہے۔‘
تاہم حیدرآبادی مورخ سجاد شاہد کے مطابق آغا حسین ضابط سے قبل نظام دکن کے یمنی النسل وزیر سلطان سیف نواز جنگ نے یہاں ہریس متعارف کرائی تھی۔
’وہ مہمانوں کو دیے جانے والے عشائیوں میں ہریس کو خاص طور پر اپنے دسترخوان کی زینت بناتے تھے۔‘
ڈاکٹر سیف اللہ کہتے ہیں کہ حیدرآبادی حلیم ذائقہ کے اعتبار سے ایران، ترکی، عراق اور فلسطین میں بننے والی حلیم سے الگ اور مختلف ہوتی ہے۔
’حلیم اب حیدرآباد کی پہچان بن گئی ہے۔ یہاں سے حلیم بھارت کے دوسرے شہروں یہاں تک کہ دوسرے ممالک برآمد کی جاتی ہے۔‘
حیدرآبادی کھانوں کے ماہر اور مورخ محبوب عالم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حلیم الگ الگ ناموں سے دنیا کے تقریباً تمام مسلم ملک میں بنتی ہے۔
’کہیں یہ ہریس تو کہیں حلیم کہلاتی ہے۔ بعض ممالک میں دوسرے ناموں سے بنتی ہے۔ میں نے ترکی میں بھی حلیم یا ہریس کھائی ہے۔ وہاں گیہوں الگ اور گوشت اور اس کا شوربا الگ ملتا ہے۔ پھر دونوں چیزیں ملا کر کھائی جاتی ہیں۔
’میں نے پاکستان کے شہر لاہور میں ہریس روٹی کے ساتھ کھایا ہے۔ لاہوری ہریس یا ہریسہ تقسیم ہند سے قبل امرتسر کی ڈش تھی۔ جو آج بدقسمتی سے امرتسر میں نہیں بلکہ لاہور میں ملتی ہے۔‘
محبوب عالم خان کہتے ہیں کہ عرب اور دیگر مسلم ممالک میں بننے والی حلیم یا ہریس بھارت اور پاکستانیوں کے ذائقے کے مطابق نہیں ہوتی کیوں کہ اس میں کم مصالحوں کا استعمال ہوتا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا حلیم میکنگ شہر
محبوب عالم خان کا دعویٰ ہے کہ حیدرآباد میں جتنی حلیم بنتی ہے دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں بنتی۔
’ہر روز سینکڑوں ٹن حلیم بنتی ہے اور کھائی جاتی ہے۔ لیکن یہ اب وہ حلیم نہیں رہی جس کو ہم گھروں میں بنا کر کھاتے تھے۔ اب یہ کمرشلائز ہو گئی ہے۔
’حلیم میں ایک بڑی تبدیلی یہ لائی گئی ہے کہ ریستوران مالکان اب ثابت گیہوں کی جگہ روا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے استعمال سے حلیم کا روایتی ذائقہ تبدیل ہوا ہے۔
’اس کے علاوہ ان کے ہاتھ جو بھی مصالحہ آتا ہے وہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن میں اپنے گھر میں اب بھی اسی طریقے سے حلیم تیار کرتا ہوں جو طریقہ میں نے اپنے باب دادا سے سیکھا تھا۔‘
محبوب عالم خان کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں اب بعض ریستوران مالکان چکن کی بھی حلیم بنانے لگے ہیں جو ایک اچھا تجربہ نہیں ہے۔
’میرا ماننا ہے کہ چکن کی حلیم اس وجہ سے نہیں بن سکتی کیوں کہ آپ چکن کو گھوٹ نہیں سکتے۔ اب بھارت میں ویجیٹیرین حلیم بھی بننے لگی ہے۔ یہ تجربات صحیح نہیں ہیں۔‘
محبوب عالم خان نے حلیم کھانے کے مضر اثرات کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا: ’لوگوں میں صحت بخش خوراک کا شعور تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ وہ کوئی بھی چیز کھانے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں۔
’لیکن اگر آپ حلیم یا حیدرآبادی بریانی کھا رہے ہیں تو پھر آپ کو اپنی اس سوچ کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہو گا کیوں کہ حلیم اور بریانی دونوں ہائی پروٹین ڈشز ہیں۔‘
حلیم اور ’تلنگانہ پوٹلہ‘
حیدرآباد کی تاریخ کے مطالعے میں گہری دلچسپی رکھنے والے نوجوان محقق ڈاکٹر حسیب جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حیدرآبادی حلیم کو غیر معمولی ذائقہ بخشنے میں ’تلنگانہ پوٹلہ‘ یا ’تلنگانہ گوشت‘ کا بڑا کردار ہے۔
’ہمارے یہاں گوشت کی کوالٹی شمالی بھارت کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ہم بھیڑوں کی جو نسل پالتے اور کھاتے ہیں اس کا نام تلنگانہ پوٹلہ ہے۔
’اگر ہم بھیڑوں کی اس نسل کی تاریخ میں جائیں گے تو یہ انڈین اور ترکش بھیڑوں کی کراس بریڈ ہے جو آج سے زائد از 400 سال قبل قطب شاہی دور حکومت میں وجود میں آئی۔
’تلنگانہ پوٹلہ کھانے میں بہت لذیذ ہوتا ہے۔ اگر یہاں کے کسی ڈش کا نسخہ ہم دہلی میں اپنائیں گے تو سب کچھ صحیح کرنے کے باوجود وہ مزہ نہیں آتا جو ہمیں حیدرآباد میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی حلیم باقی جگہوں پر بننے والی حلیم یا ہریس کے مقابلے میں زیادہ لذیذ ہوتی ہے۔‘
بہت مشقت والا کام
حیدرآباد دکن میں رمضان شروع ہونے سے کئی ہفتے قبل ہی جگہ جگہ پر حلیم کی بھٹیاں قائم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان بھٹیوں کے ایندھن کے لیے لکڑیوں یا گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
علامہ اعجاز فرخ کہتے ہیں: ’حلیم بنانا ایک بہت ہی محنت و مشقت والا کام ہے۔ اس کے لیے بھٹیاں بنائی جاتی ہیں اور تانبے کی دیگوں کا استعمال ہوتا ہے۔ گیہوں اور گوشت کو گھنٹوں تک گھوٹا جاتا ہے۔
’اصلی گھی اور زعفران کے استعمال سے اس کا مزہ اور خوشبو بڑھ جاتی ہے۔ اچھی حلیم میں زعفران ضرور ڈالی ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر حسیب جعفری کے مطابق حلیم کی تیاری میں 12 سے 16 گھنٹے لگتے ہیں۔
’آپ کو ایک دیگ حلیم بنانے کے لیے کم از کم تین سے چار لوگوں کی ضرورت ہے۔ دو لوگ لگاتار اس کو گھوٹنے کے کام میں لگے ہوتے ہیں۔ اس کی تیاری میں مشینری کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔‘
کروڑوں روپے کا کاروبار
ایک اندازے کے مطابق حیدرآباد دکن میں رمضان میں آٹھ سے نو سو کروڑ روپے (تقریباً ساڑھے دس تا بارہ لاکھ امریکی ڈالرز) کی حلیم فروخت ہوتی ہے۔
حلیم کی تیاری میں درکار چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ریستوران مالکان نے اس بار حلیم کی قیمت بڑھا دی ہے۔ مشہور آؤٹ لٹس پر فی کس حلیم پلیٹ کی قیمت 230 سے 300 کے درمیان ہے۔
ڈاکٹر حسیب جعفری کہتے ہیں کہ اس رمضان میں بھی حیدرآباد میں حلیم کی آؤٹ لٹس کی تعداد 10 سے 12 ہزار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’حلیم کی وجہ سے رمضان میں کم از کم 50 ہزار لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ کرونا (کورونا) کی وجہ سے دو سال تک لوگ اچھے سے حلیم نہیں کھا پائے تھے۔ اس بار اس کے کاروبار میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔‘
بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں حلیم میکرز ہر سال رمضان میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو عارضی روزگار فراہم کرتے ہیں۔
’اس کے علاوہ بزنس ایڈمنسٹریشن اور دیگر پیشہ ور کورسز کے کم از کم ایک ہزار طلبہ مارکیٹنگ کی تکنیکوں اور حلیم اکنامکس کو سمجھنے کے لیے اپنے عارضی آؤٹ لٹس کھول کر پارٹ ٹائم حلیم بیچتے ہیں۔‘
اخبار نے لکھا ہے کہ حیدرآبادی حلیم کو جغرافیکل انڈیکیشن یا جی آئی ٹیگ ملنے اور کئی مہینوں تک تازہ رکھنے والی جدید پیکیجنگ ٹکنالوجی کے استعمال سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
حلیم بنانے کا گھریلو نسخہ
محبوب عالم خان اپنے گھر میں خود حلیم تیار کرتے ہیں اور اس کا نسخہ شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم آج بھی حلیم لکڑیاں جلا کر تانبے کے برتن میں پکاتے ہیں۔
’گوشت اور گیہوں کی مقدار کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ بغیر ہڈیوں والے گوشت کا ہم استعمال نہیں کرتے کیوں کہ جو ذائقہ ہڈیوں والے گوشت سے ملتا ہے وہ بغیر ہڈیوں والے سے نہیں ملتا۔
’ہم حلیم بنانے کے لیے ایک کلو گیہوں، دو سے ڈھائی یا پھر تین کلو گرام ہڈیوں والا گوشت اور ایک کلو گرام گھی کا استعمال کرتے ہیں۔
’پہلے سے بھگوئے ہوئے گیہوں کو ہاتھ سے کوٹ کر اس کا بھوسا الگ کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے گلنے کے لیے پکنے دیا جاتا ہے۔ گیہوں کو گل کر پکنے میں کم از کم دو سے ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
’اس کے بعد اس میں ہم گوشت کے ساتھ دیسی گھی، کچے یعنی بغیر فرائی کے پیاز، لال مرچ حسب ذائقہ، ہلدی ایک چمچ، گرم مصالحہ (الائچی، شاہی زیرا اور دار چینی)، لہسن، ذائقے کے لیے چٹکی بھر زعفران بھی ڈالتے ہیں۔ حلیم کو تیار کرنے میں کم از کم سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔‘
محبوب عالم خان کچے پیاز کے استعمال کے متعلق کہتے ہیں کہ فرائی پیاز اگر حلیم پکاتے ہوئے ڈالا جائے تو اس کا رنگ کالا ہو سکتا ہے۔
’ہم فرائی پیاز آخر میں حلیم کی اوپری تہہ پر سجاوٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
حلیم پر 'دیوبند' کا فتویٰ
بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں واقع مسلمانوں کے ایک مذہبی ادارے ’دارالعلوم دیوبند‘ نے اپنے ایک فتوے میں کہا ہے کہ ’حلیم‘ لفظ بولے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’دارالعلوم دیوبند‘ کی ویب سائٹ کے مطابق ایک شخص نے مذکورہ ادارے کو ایک سوال بھیجا تھا جو کچھ یوں تھا: ’انٹرنیٹ پر یہ بات کافی چل رہی ہے کہ کھانے کی ڈش جسے ہم حلیم کے نام سے جانتے ہیں اسے حلیم کی بجائے دلیم کہنا چاہیے کیوں کہ حلیم اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔‘
اس کے جواب میں ’دارالعلوم دیوبند‘ نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے: ’ایک لفظ کے متعدد معنی ہوسکتے ہیں، پس حلیم کا لفظ جہاں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے وہیں اس کے درج ذیل معنی بھی ہیں، بردبار، متحمل مزاج، نرم ملائم، ان معانی کے اعتبار سے اس لفظ کا اطلاق کسی انسان پر بھی ہوسکتا ہے جیسے ’زید بردبار انسان ہے‘ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ صفاتی نام ایسا نہیں ہے کہ غیر اللہ پر اس کا اطلاق نہ ہوسکے۔
’اردو کی لغت میں حلیم کے یہ معنی بھی لکھے ہیں ’ایک قسم کا کھانا جو اناج گوشت اور مصالحے ڈال کر پکایا جاتا ہے‘ اسے کھچڑا بھی کہتے ہیں۔ پس اس مخصوص کھانے کے لیے حلیم کا لفظ بولے جانے میں کوئی حرج نہیں۔‘