نگران کابینہ کی تشکیل: مرتضیٰ سولنگی وزیر اطلاعات نامزد

صحافی مرتضیٰ سولنگی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں نگراں وزیر اطلاعات کے عہدے کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے قبول کر لی ہے۔

صحافی مرتضیٰ سولنگی 16 نومبر 2018 کو بیجنگ میں سی پیک میڈیا فورم میں شرکت کے موقعے پر (تصویر: زبیر بشیر/ مرتضیٰ سولنگی فیس بک پیج)

سابق اتحادی حکومت کی مدت ختم ہونے اور 14 اگست کو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے حلف اٹھانے کے بعد اب سب کی نظریں نگران کابینہ پر ہیں کہ کابینہ میں کون سے نام شامل ہوں گے اور کابینہ کب تک تشکیل پا جائے گی۔

اس سلسلے میں کئی نام زیر گردش ہیں۔ مختلف ٹیلی وژن چینلز اور ذرائع ابلاغ پر چلنے والے کئی ناموں سے متعلق تردید بھی سامنے آئی ہے جبکہ کئی ناموں کو کابینہ کے لیے مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سابق سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے نگران وزیر اعظم بننے کے بعد یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ انہی کی جماعت کے سینیٹر سرفراز بگٹی وزارت داخلہ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں جبکہ سابق سفیر جلیل عباس جیلانی کا نام بطور نگران وزیر خارجہ سامنے آ رہا ہے۔

اسی دوران صحافی مرتضیٰ سولنگی نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں نگراں وزیر اطلاعات کے عہدے کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے قبول کر لی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میرا نام کس نے دیا ہے، اس بات کا علم نہیں۔ مجھ سے تو براہ راست نگران وزیراعظم نے رابطہ کیا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سابق اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے قریبی لوگ نگران حکومت میں شامل ہوں گے یا نہیں؟ یا کوئی سیاسی جماعت کابینہ کا حصہ نہ بننے کا بھی سوچ رہی ہے؟ اور کابینہ کی تشکیل کا عمل کب تک مکمل ہو جائے گا؟

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ جماعت کے اندر مشاورت کے بعد یہ رائے ہے کہ نگران کابینہ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ’ہم نے پارٹی قیادت کو یہ تجویز دی ہے کہ ن لیگ کو موجودہ نگران سیٹ اپ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘

نگران کابینہ کے لیے مسلم لیگ ن کی جانب سے نام دیے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ہم اس معاملے پر بالکل آؤٹ ہیں۔‘

بقول مرتضیٰ جاوید عباسی: ’ہماری قیادت کی کمزوری ہے کہ نگران حکومت کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں کر سکی۔ اتحادی جماعتوں کو کہا گیا تھا کہ متفقہ رائے دیں لیکن جب سیاسی قیادت ایک نام پر متفق نہیں ہو گی تو یہی ہوگا۔‘

 

اس معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آصف علی زرداری نے اپنے قریبی دوستوں ڈاکٹر عاصم اور سلیم مانڈوی والا سمیت دیگر کچھ نام دیے ہیں۔ آج کابینہ تشکیل پا جائے گی جبکہ اس معاملے پر اعلیٰ قیادت کے ساتھ مشاورت ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے نگران وزیر خارجہ کے لیے جلیل عباس جیلانی کا نام دیا گیا ہے جبکہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی جانب سے سابق وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر رہنے والے احد چیمہ کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نگران کابینہ کے معاملے پر بات چیت جاری ہے اور ان کی جماعت نے نگران کابینہ کے لیے ناموں کو حتمی شکل نہیں دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول فرحت اللہ بابر: ’کابینہ کا حصہ ہونا اتنا ضروری نہیں ہے، ہمارا مقصد انتخابات ہیں، جس کی بات کسی نے نہیں کی۔‘

اتحادی جماعتوں کے کابینہ کا حصہ بننے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اصولی طور پر نگران وزیر اعظم کو بھی (کسی سیاسی جماعت سے) نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ یہ نیوٹرل (غیر جانبدار) نہیں ہے۔ اگر نیوٹرل کرنا ہے تو پھر سیاسی جماعت کے لوگ نہ ہوں۔‘

فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ لیکن اگر بلوچستان عوامی پارٹی کا نگران وزیراعظم آ گیا ہے، تو ان کا نہیں خیال کہ باقی لوگ بھی غیر جانبدار ہوں گے۔ وہ بھی جانبدار ہوں گے۔

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم رکن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیراعظم کی کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر مشاورت جاری ہے۔ ’وزیراعظم کا خیال ہے کہ کابینہ بہت چھوٹی ہونی چاہیے جو 12 سے 15 اراکین پر مشتمل ہو۔ اس وقت میڈیا پر چلنے والے بعض نام درست نہیں ہیں۔ سرفراز بگٹی کے کابینہ میں شامل ہونے کا قوی امکان ہے اور توقع ہے کہ آج کابینہ کے چند نام سامنے آ جائیں گے۔‘

اسی طرح جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والی شاہدہ اختر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حوالے سے جماعت کے مشاورتی اجلاس ہو رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن خود اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ ’کہا جا رہا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے پاس جو وزارتیں تھیں، ان کے دیے گئے نام منظور ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام بھی نگران کابینہ کا حصہ بننے جا رہی ہے۔

اس تمام صورت حال کے بعد اب دیکھنا ہے کہ نگران وفاقی کابینہ کے لیے انوار الحق کاکڑ کی طرح ہی کوئی سرپرائز سامنے آئے گا یا پھر میڈیا میں زیر گردش نام بھی کابینہ کا حصہ ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست