پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں کچھ دنوں سے احتجاج کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی کئی شکایات سامنے آ رہی ہیں، جس کے پیش نظر نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے آج (بروز اتوار) ایک ہنگامی اجلاس طلب کر رکھا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کے جو اہلکار بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی پر بجلی کے میٹر کاٹنے گئے، ان پر تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
پنجاب کے شہر راولپنڈی اور ملتان میں بھی بجلی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے احتجاج اور غصے کے باعث آئیسکو راولپنڈی کو اپنے دفاتر کے تحفظ کے لیے پولیس تعینات کروانے کی ضرورت پیش آئی ہے۔
جمعے کو سپرنٹنڈنگ انجینیئر کی جانب سے راولپنڈی پولیس کو لکھے گئے خط میں متعلقہ عمارتوں میں پولیس اہلکار تعینات کرنے کی درخواست کی گئی۔
خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں بھی بجلی کے بلوں کے اضافے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
ہفتے کو اسلام آباد میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور سیکرٹری پاور ڈویژن نے ایک پریس بریفنگ میں بجلی کمپنی کے افسران کو مفت یونٹس کی فراہم ختم کرنے کا اعلان کیا۔
سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ واپڈا کے پرانے ملازمین کے علاوہ کسی محکمے میں بجلی کے بلوں میں رعایت نہیں دی جا رہی اور یہ کہ اس وقت یہ رعایت بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو مل رہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کہ تمام بوجھ بجلی کا بل ادا کرنے والوں پر ڈالا جا رہا ہے۔
دوسری جانب نگران وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے آج ہونے والے ہنگامی اجلاس میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ اور صارفین کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے سے متعلق مشاورت کی جائے گی۔
صارفین کی شکایات
واہ کینٹ کے رہائشی علی زیدی کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صرف دو پنکھے اور ایک کولر چلنے کے باوجود اس ماہ بجلی کا بل 36 ہزار روپے آیا ہے، جس میں 13 ہزار روپے ٹیکسز کی مد میں وصول کیے گئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں علی نے بتایا: ’دو ماہ قبل ہم دو پنکھے اور ایک کولر استعمال کر رہے تھے اور ہمارا 15 جون سے 15 جولائی تک کا بل 22 ہزار روپے آیا۔ بل کے مطابق ہم نے 547 یونٹ استعمال کیے اور ایک یونٹ کی قیمت 27 روپے تھی۔ یہ دیکھ کر میں نے اہلیہ کو کہا کہ کولر کا استعمال بالکل محدود کر دیتے ہیں اور اسے صرف رات کو سوتے وقت ہی چلائیں گے تاکہ بجلی کا بل اتنا نہ آئے۔‘
علی کے مطابق انہوں نے 15 جولائی کے بعد صرف دیر رات کو کولر چلایا لیکن اس کے باوجود ان کا بجلی کا بل 15 اگست کے بعد 36 ہزار روپے آیا۔ ’بل کے مطابق ہم نے 609 یونٹ استعمال کیے اور ایک یونٹ کی قیمت 37 روپے لگائی گئی ہے، اس کے علاوہ ٹیکسز بھی شامل ہیں۔ ہمارے گھر میں بجلی کے اتنے آلات بھی نہیں ہیں، اس کے باوجود 23 ہزار روپے بجلی کی قیمت ہے جبکہ 13 ہزار روپے ٹیکسز کی مد میں وصول کیے گئے ہیں۔‘
علی سمیت ملک کے ہزاروں افراد بجلی کے نرخوں میں اضافے سے تنگ ہیں۔ ملک میں معیشت کی خراب صورت حال اور آئے روز اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بجلی کے اضافی بلوں نے شہریوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں کے رہائشی سوال کر رہے ہیں کہ آخر کسی گھر میں صرف ایک پنکھا اور ایک بلب کا بل بھی ہزاروں روپے کی شکل میں کیوں آ رہا ہے؟ بجلی کے بلوں میں ایک دم اضافے کی اصل وجہ کیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ سابقہ حکومت کا ہے یا پھر نگراں حکومت کا؟ اور کیا بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے اپنے ملازمین بل ادا نہیں کر رہے یا پھر انہیں حد سے زیادہ سہولیات میسر ہیں؟
ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بجلی کے بلوں میں اضافہ کیسے ہوا ہے۔
بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجوہات
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جاری کردہ ٹیرف گائیڈ کے مطابق بجلی کے بنیادی نرخوں پر ایڈجسٹمنٹ لگائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ سابقہ اتحادی حکومت پچھلے ڈیڑھ برس میں مجموعی طور دو دفعہ میں 15 روپے 41 پیسے فی یونٹ اضافہ کر چکی ہے۔
گذشتہ برس دسمبر میں تقریباً سات روپے 91 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا تھا جبکہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل تقریباً ساڑھے سات روپے فی یونٹ تک اضافہ کیا گیا، جو اب بلوں میں شامل ہو کر بجلی صارفین تک ادائیگی کے لیے پہنچا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیپرا کے ٹیرف گائیڈ کے مطابق پہلے زمرے (سلیب) میں ایک سے 50 یونٹ، دوسرے میں ایک سے 100 یونٹ، تیسرے میں 101 سے 200 یونٹ، چوتھے زمرے میں 201 سے 300 یونٹ اور اس طرح آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
بجلی کے نرخوں کی دو قسمیں ہیں جنہیں ’محفوظ ٹیرف‘ اور ’غیر محفوظ ٹیرف‘ کہا جاتا ہے۔
جس صارف کا چھ ماہ تک بجلی کا بل 200 یونٹ تک یا اس سے کم آتا ہے، اسے محفوظ کہا جاتا ہے اور جس صارف کے بل میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، وہ غیر محفوظ ٹیرف کے زمرے میں آتا ہے۔
نجی ٹی وی چینل میں توانائی سے متعلق امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی علیم ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ دنوں ساڑھے سات روپے فی یونٹ اضافے کے علاوہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی گئی جو رواں ماہ ایک روپیہ 81 پیسے فی یونٹ اضافے کے ساتھ لگ کر بل میں آئی ہے۔ اس کے علاوہ تیسری سہ ماہی کی ایڈجسٹمنٹ بھی ایک روپیہ 25 پیسے فی یونٹ کے حساب سے بل میں شامل کی گئی ہے۔‘
علیم ملک کے مطابق بجلی کے بل میں اضافے کی وجہ یہ ساڑھے سات روپے فی یونٹ اضافہ، ماہانہ اور سہ ماہی فیول ایڈجسمنٹس ہیں، جو بجلی کے بل میں شامل ہو کر آئی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد ٹیکسز بھی بجلی صارفین کو دینا ہوتے ہیں اور یہ تمام ٹیکس شامل کیے جانے کے بعد شہریوں کے بل میں اضافہ ہوا ہے۔
بجلی کے بلوں میں لگائے جانے والے ٹیکسز میں جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس، فردر ٹیکس، نیلم جہلم سرچارج، سیلز ٹیکس، سیلز ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، انکم ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، محصول بجلی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے)، ایکسٹرا ٹیکس آن ایف پی اے، فردر ٹیکس آن ایف پی اے اور سیلز ٹیکس آن ایف پی اے شامل ہیں۔
کیا اسلام آباد کو بجلی فراہم کرنے والا ادارہ نرخ کم یا زیادہ کر سکتا ہے؟
چھ ضلعوں میں مقیم 32 لاکھ سے زائد افراد کو بجلی مہیا کرنے والے اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کے ترجمان راجہ عاصم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے ادارے کی ذمہ داری بجلی خرید کر صارفین تک پہنچانا ہے اور انہیں متعلقہ سروسز فراہم کرنا ہیں۔ بجلی کے نرخوں اور ان میں لگنے والے ٹیکسز سے آئیسکو کا کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ جبکہ نرخوں کو ریگولیٹ کرنے کا تعلق نیپرا سے ہے۔
بجلی کے بلوں میں اضافے پر احتجاج سے متعلق انہوں نے کہا کہ صارفین کو اندازہ نہیں ہے کہ آئیسکو ٹیکسز نہیں لگاتا اور نہ ہی ٹیرف فکس کرتا ہے۔ ’چند افراد ایک ہجوم کو گمراہ کرتے ہیں کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں۔‘
آئیسکو سمیت بجلی کے دیگر محکموں کو مقرر کردہ بجلی کے یونٹ مفت بطور مراعات ملنے پر عوام کی جانب سے غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ترجمان نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کوئی بھی ادارہ جیسے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، سوئی گیس وغیرہ اپنے ملازمین کے محافظ ہیں۔ جہاں تک آئیسکو کا تعلق ہے وہاں ادارہ اپنے ملازمین کو یہ سہولت فراہم کرتا ہے تاہم یہ تاثر غلط ہے کہ ملازمین کو تمام یونٹ مفت دیے جاتے ہیں بلکہ ادارے کو ہونے والے منافعے میں سے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کو اس کی باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جب ہم ٹیکس فائل کرتے ہیں تو اس سہولت پر ہم ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔‘
ترجمان آئیسکو کے مطابق ملازمین کی یہ سہولت 50 یونٹس سے شروع ہوتی ہے اور گریڈ کے حساب سے ان یونٹس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، جیسے 18 گریڈ کے ملازم کو 500 یونٹ مفت مہیا کیے جاتے ہیں اور یہ سہولت ماہانہ نہیں بلکہ سالانہ ہوتی ہے۔
کے الیکٹرک کا موقف
دو کروڑ نفوس سے زیادہ آبادی والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے نجی ادارے کے الیکٹرک کے ترجمان حسام صدیقی کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا کہ ’بجلی کے نرخوں کا تعین وفاقی حکومت کرتی ہے جو ملک بھر میں یکساں ہے، جس کا ان کے ادارہ کو ملنے والے منافع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گذشتہ ایک برس میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے تو ہمیں پچھلے نو ماہ میں 40 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ نرخ میں اضافے سے ان کے ادارے کو فائدہ نہیں ہوتا، انہیں ملنے والی رقوم سے وہ دیگر ادائیگیاں کرتے ہیں جس میں بجلی خریدنے کی ادائیگی بھی شامل ہے۔
ریگولیٹر نیپرا کا موقف
انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی حکومت کو ٹیرف میں اضافے یا کمی کی تجویز دینے والے نگراں ادارے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے نمائنگان سے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کا موقف نہیں مل سکا۔
سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل خورشید شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کے معاملے میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا اہم کردار ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ہمیں اپنے دور میں ونڈ انرجی سمیت مختلف منصوبوں پر کام کرنا چاہیے تھا۔ اگر کام کرتے تو حالات مختلف ہوتے۔ اب بھی حکومت 10 سے 15 روپے فی یونٹ تک عوام کو ریلیف دے سکتی ہے جو ممکن بھی ہے۔‘