1970 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ عروج میں سندھ کے تالپور برادران کا بڑا شعرا تھا۔ بڑے بھائی علی احمد تالپور رکن قومی اسمبلی اور وزیر بنے تو چھوٹے بھائی میر رسول بخش تالپور صوبائی اسمبلی کے رکن اور سندھ کے گورنر ہوئے۔
ذوالفقار بھٹو صاحب کا اپنا ایک سیاسی مزاج تھا، جہاں عام لوگوں سے قربت اور محبت کا اظہار کرتے، وہیں بھری محفل میں اپنے رفقا پر پھبتی بھی کستے۔
کسی عوامی تقریب میں تالپور برادران پر بھٹو صاحب نے جملہ لگایا تو ان کے دل کو لگ گیا اور اسے اپنا اور اپنے خاندان کی انا کا مسئلہ بنا لیا۔
حیدر آباد کے ایک جلسے میں بھٹو صاحب نے ہاتھ کے اشاروں سے ایک ایسی نازیبا بات کہی کہ مخالفت دشمنی تک آ گئی، جس کے بعد تالپور برادران کا تھانہ کچہری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
علی احمد تالپور جب کراچی میں ہوتے تو شکارپور کالونی کے گھر میں بڑی محفلیں سجتیں۔ جب کوئی گھمبیر سیاسی مسئلہ آتا تو میر علی احمد تالپور اپنے مخصوص انداز میں ایک مصرع پڑھتے؎
’مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات‘
اس پر محفل میں بیٹھے لوگ جب وضاحت مانگتے تو اسی مصرعے کو وہ اس طرح پڑھتے کہ موضوع اور زیادہ گمبھیر بن جاتا۔
سو اِس وقت ملک کی صورت حال، مستقبل کے سیاسی منظر نامے خاص طور پر الیکشن کے انعقاد کے اعتبار سے ایسی ہی ہے۔
1973 کے آئین میں یہ واضح تھا کہ اقتدار میں رہنے والی جماعت ہی آئندہ انتخابات کروائے گی، کسی نگران حکومت کا تصور نہیں تھا۔
مارچ 1977 میں بھٹو صاحب نے جو دھاندلی زدہ الیکشن کروائے، اس نے ان کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔ جنرل ضیا الحق نے 90 دن میں انتخابات کا وعدہ کر کے کم و بیش 10 سال اقتدار کھینچا۔
1985 میں جو غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے، اس سے جنم لینے والی اسمبلی کو مجلس شوریٰ کا نام دیا گیا۔
محمد خان جونیجو نے جب خود کو وزیراعظم سمجھنا شروع کیا تو مئی 1988 میں ان کی چھٹی ہو گئی۔ اگست میں جنرل ضیاالحق ناگہانی موت کا شکار نہ ہوتے تو شاید ان کا اقتدار تاحیات جاری رہتا۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں جہاں سیاسی ترامیم کے ذریعے آئین کا حلیہ بگاڑا گیا، وہیں عبوری دور کے لیے نگران حکومت کی شق بھی رکھی گئی۔
دسمبر 1988 میں بننے والی بے نظیر بھٹو کی حکومت محض 21 ماہ چلی۔ اس وقت تک عنان اقتدار صدرغلام اسحاق خان کے ہاتھ میں تھا اور ان کے نائب کی حیثیت سے نواز شریف کی تربیت ہو رہی تھی۔
بھٹو صاحب کے دست راست غلام مصطفیٰ جتوئی اگست 1990 میں نگران وزیراعظم بنے اور بہرحال 90 دن میں انہوں نے انتخابات کروا بھی دیے، جس کے نتیجے میں نومبر 1990 میں نواز شریف وزیراعظم بنے۔
صدر غلام اسحاق خان کی نواز شریف سے بھی نہیں بنی اور کم و بیش جن الزامات میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تھی، ان ہی الزامات کے تحت میاں صاحب کی حکومت کو بھی رخصت کر دیا گیا۔
میر بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت کا دورانیہ بھی 90 دن رہا۔ میاں صاحب کے بعد ایک امپورٹڈ نگران وزیراعظم معین قریشی لائے گئے۔
انہوں نے بھی اپنی مقررہ مدت یعنی تین ماہ میں الیکشن کروا کر اقتدار 1993 میں بے نظیر بھٹو کے حوالے کر دیا۔
دوسری بار محترمہ کا دور زیادہ طویل رہا اور دو سال اور کچھ مہینے اوپر انہوں نے حکومت کی۔
نومبر 1996 میں ان کی حکومت ختم کرنے کے بعد دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ہی ملک معراج خالد نگران وزیراعظم ہوئے۔
ملک صاحب نے بھی تین ماہ حکومت کرکے فروری 1997 میں الیکشن کروائے جس کے نتیجے میں تیسری بار نواز شریف وزیراعظم بنے اور 12 اکتوبر 1999 تک ان کا اقتدار رہا۔
میاں صاحب کے سر میں ماضی کے تجربے کی روشنی میں یہ سودا سما گیا تھا کہ جب تک ساڈا صدر، ساڈا وزیراعظم، ساڈا جنرل نہیں ہو گا اس وقت تک شریف حکومت سکون کا سانس نہیں لے سکے گی۔
جنرل ضیاالحق کے بعد جنرل پرویز مشرف کا دور بھی طویل دورانیے کا تھا۔ اس دوران جو وزیراعظم بنے ان کی حیثیت محض ربر سٹیمپ جیسی تھی، مگر بہرحال جنرل مشرف کو بھی زعم اقتدار نے اپنے انجام کو پہنچایا۔
نومبر2007 میں محمد میاں سومرو نگران وزیراعظم ہوئے اور بہرحال یہ تو ماننا پڑے گا کہ ماضی کے تمام نگرانوں کی طرح انہوں نے بھی تین ماہ حکومت کرنے کے بعد اقتدار پیپلز پارٹی کے منتخب وزیراعظم کے حوالے کیا۔
مگر یہ بھی ایک المیہ ہے کہ لندن میں میثاق جمہوریت کرنے والی دونوں پارٹیوں یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی محاذ آرائی جاری رہی، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت رخصت ہوئی۔
میر ہزار خان کھوسو نگران وزیراعظم بنتے ہیں، مگر خوش آئند بات ہے کہ بعد میں آنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اپنی مدتیں تقریباً پوری کیں۔
مگر وطن عزیز کو نگران حکومتوں سے چھٹکارا نہیں ملا اور جون 2018 میں جسٹس (ر) ناصر الملک نگران وزیراعظم بنے۔
اس دوران تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت بن کے ابھری، عمران خان وزیراعظم بنے تو ان سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئیں مگر ان کی ساری سیاست پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو گالم گلوچ کرنے میں گزر گئی۔
مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہوا تو ان کے روایتی دشمنوں کو عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔
اسٹیبلشمنٹ نے جو بےساکھیاں خان صاحب کو دی تھیں وہ ان کے مخالفوں کو مل گئیں، جنہوں نے بہرحال 16 ماہ حکومت تو ضرور چلائی مگر اپنے اقتدار کے اختتام پر مہنگائی کو جس بام عروج پر پہنچایا، اس نے وطن عزیز کو آئی ایم ایف کو گروی رکھوا دیا۔
تاریخ میں جانے میں مشکل یہ ہے کہ وہ طول پکڑ لیتی ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ بات مستند تاریخی حوالوں سے کی جائے۔
اصولی طور پر اگر پی ڈی ایم کی حکومت 12 اگست کو اسمبلیاں تحلیل کر دیتی تو تمام سٹیک ہولڈرز 60 دن میں انتخابات کروانے کے پابند ہوتے۔
مگر لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس کے لیے اتحادی جماعتیں سہولت کار بنیں، اس سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا۔
اسی سبب وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی بلکہ سرپرستوں کو یہ خوف ڈراتا رہا کہ کہیں مہنگائی اور تحریک انصاف کی مقبولیت انہیں نومبر 2023 کے الیکشن میں اقتدار سے محروم نہ کر دیں۔
یہی سبب تھا کہ الیکشن کی مقرہ تاریخ سے محض ایک ہفتہ پہلے مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کو الیکشن سے مشروط کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں الیکشن تو فروری 2024 تک جانے ہی تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شریف حکومت نے جاتے جاتے جو بلوں کی فیکٹری لگائی اور جس طرح سپریم کورٹ اور صدر مملکت کے پَر کاٹے، اس میں وہ اس حد تک آگے چلے گئے کہ آئین میں الیکشن 2017 ترمیمی بل پاس کر کے الیکشن کروانے کا اختیار صدر سے لے کر چیف الیکشن کمشنر کو دے دیا۔
کون نہیں جانتا اور پھر ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے الیکشن کمیشن کتنے آزاد اور غیر جانب دار ہوتے ہیں۔
1970 کے الیکشن کے بعد کسی بھی الیکشن کو ہارنے والی جماعت نے تسلیم نہیں کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہی سیاسی جماعتیں جنہوں نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا مینڈیٹ دیا تھا وہی 90 دن میں الیکشن کروانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
سو اب بال سپریم کورٹ میں ہی جائے گی۔ پاکستان بار کونسل پہلے ہی انتخابات کی تاریخ کے لیے سپریم کورٹ جا چکی ہے۔
مگر پی ڈی ایم جماعتیں کس منہ سے سپریم کورٹ جائیں گی کہ 14 مئی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے پارلیمنٹ میں یک زبان ہو کر کہا گیا تھا کہ سارے ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہوں۔
سپریم کورٹ صرف 1.1 ارب روپے کا مطالبہ کر رہی تھی مگر آخری دن تک اس کی چیخ و پکار نہیں سنی گئی۔۔۔ تو پھر مقطع میں سخن گسترانہ بات آ گئی نا۔
الیکشن کی تاریخ کون دے گا؟ الیکشن کب ہوں گے؟ فروری کے بعد بھی الیکشن نہ کروائے جائیں تو اس پر آئین خاموش ہے۔ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کو زندہ کرنے کے لیے بس ایک دلیل ہی کافی ہے ۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔