مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے بدھ کو کہا ہے کہ مردم شماری پر اتفاق رائے کے بعد آئندہ عام انتخابات کی تاریخ 90 روز میں نہیں بلکہ فروری میں بنتی ہے اور یہ بات ان کی سابق اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی معلوم تھی۔
بدھ کی رات جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ خان نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے انتخابات سے متعلق حالیہ بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جیسے پی پی پی کے پاس سیاسی بیان یا موقف دینے کا حق ہے، اسی طرح مسلم لیگ ن کے پاس بھی یہ اختیار ہے کہ وہ جواب دے۔
بقول رانا ثنا اللہ: ’جس دن مردم شماری اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی تھی، اس دن بلاول اور پوری پیپلز پارٹی کو پتہ تھا کہ اب الیکشن 90 دنوں میں نہیں بلکہ 90 دن پلس 54 دنوں کے بعد ہوں گے۔ وہ مہینہ فروری کا ہی بنتا ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نو اگست 2023 کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ان کی جماعت کی اتحادی نہیں رہی۔ ’آنے والے الیکشن میں وہ (پی پی پی) ہمارے مدمقابل ہو گی اور ہم ایک جمہوری ماحول میں عزت و احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔‘
رانا ثنا اللہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب چیئرمین پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں مظفر گڑھ میں ایک جلسے سے خطاب میں بظاہر مسلم لیگ ن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’صرف ایک جماعت‘ فروری میں الیکشن ہونے کا عندیہ دے رہی ہے۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سیاسی تناظر میں ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ موجود نہیں ہے۔
بلاول نے مزید کہا تھا: ’چیف الیکشن کمشنر کو نہیں پتہ کہ الیکشن کب ہوں گے، مجھے نہیں پتہ الیکشن کب ہیں، لیکن ایک جماعت خود الیکشن کی تاریخ دے رہی ہے، اس جماعت کو پہلے سے پتہ ہے۔‘
اس سے قبل بھی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اتحادی جماعتیں الیکشن سے ’ڈر‘ رہی ہیں۔ اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ ایک محض ’سیاسی بیان‘ ہے جبکہ مسلم لیگ ن مئی 2022 میں ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ الیکشن کروائے جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے سپریم کورٹ کے الیکشن سے متعلق فیصلے کے حوالے سے کہا کہ عدالت عظمیٰ اگر فیصلہ دے گی تو یہ ایک بڑا امر ہوگا، تاہم ساتھ میں ان کا یہ بھی خیال تھا کہ سپریم کورٹ کوئی ’ریلیف‘ فراہم نہیں کرے گی۔
رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر کہا کہ (اسمبلی کی تحلیل کے بعد) الیکشن کا انعقاد 90 دن میں ممکن نہیں کیونکہ آئینی طور پر جب مردم شماری پر اتفاقِ رائے قائم ہوا ہے تو اس کے بعد شروع ہو جانے والے عمل کو روکا نہیں جاسکتا۔
صدر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے حالیہ خط میں چھ نومبر کو انتخابات کروانے کی تجویز کے حوالے سے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’صدر کے خط کی کوئی اہمیت نہیں، ان کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں۔‘
صدر عارف علوی نے بدھ کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے نام اپنے خط میں کہا تھا کہ آئندہ عام انتخابات آئین کے مطابق چھ نومبر 2023 کو ہونے چاہییں۔
صدر پاکستان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 48(5) کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ اسمبلی میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحلیل کی تاریخ سے 90 دن کے اندر کی تاریخ مقرر کرے۔‘
پاکستان کی قومی اسمبلی کو نو اگست کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کے مشورے پر صدر عارف علوی نے تحلیل کر دیا تھا۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنے کے عمل میں مصروف ہے۔ یکم ستمبر کو کمیشن نے کہا تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کی حتمی تاریخ 30 نومبر، 2023 مقرر کی گئی ہے اور اسی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا جائے گا۔