آفیشل سیکرٹ ایکٹ: عمران خان پر آج فرد جرم عائد نہ ہو سکی

عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کیمرہ سماعت سے متعلق بتایا کہ ’جج صاحب کو بتایا کہ چالان کی نقول پر دستخط کے بغیر فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی۔‘

24 جولائی 2023 کی اس تصویر میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سپریم  کورٹ میں سماعت کے بعد باہر نکلتے ہوئے (عامر قریشی/ اے ایف پی)

سرکاری دستاویز سائفر کی معلومات عام کرنے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر اڈیالہ جیل میں منگل کو فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔ عدالت نے فرد جرم کے لیے آئندہ سماعت 23 اکتوبر مقرر کر دی ہے۔

عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کیمرہ سماعت سے متعلق بتایا کہ ’جج صاحب کو بتایا کہ چالان کی نقول پر دستخط کے بغیر فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی۔‘

گذشتہ سماعت چالان کی نقول تو تقسیم ہوئی تھیں لیکن دستخط نہیں ہوئے تھے۔ منگل کو ہونے والی سماعت میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے چالان کی نقول وصول کر لیں اور ان پر دستخط کر دیے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق آفیشل سکریٹ ایکٹ 1923 کا 100 سال پرانا قانون ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں 14 سال قید یا موت کی سزا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن پانچ اے کی سزا 14 سال اور سزا موت ہے۔

منگل کو اڈیالہ جیل میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات نے سماعت کی۔ اڈیالہ جیل میں آج تیسری سماعت تھی۔ اس سے قبل اٹک جیل میں بھی خصوصی عدالت سماعتیں کر چکی ہے۔

ملزمان کو چالان کی نقول 9 اکتوبر کو تقسیم کر دی گئیں تھیں جس کے بعد عدالت نے چیرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 17 اکتوبر مقرر کی تھی اور تمام سرکاری گواہان کو بھی طلب کیا تھا۔

سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری کو دو ماہ ہو گئے ہیں، عمران خان کو سائفر کیس میں پندرہ اگست کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج ہوا، جس میں انہیں سفارتی حساس دستاویز سائفر کو عام کرنے اور حساس دستاویز کو سیاسی مفاد کے لیے اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان جو پہلے اٹک جیل میں زیر حراست تھے، توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود ان کو اس مقدمے میں شامل کر کے اٹک جیل میں ہی جوڈیشل ریمانڈ پر رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ بھی اب جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں ہیں۔

20 اگست کو سابق وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی ایف آئی اے کاونٹر ٹیررازم ونگ نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔

جس کے بعد اسد عمر نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی، 14 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت نے کہا کہ ’پراسیکیوشن کے مطابق اسدعمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں، اسدعمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا، ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اسدعمر کی گرفتاری مطلوب نہیں، اگر اسدعمر کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق چلے گی۔ فیصلے میں مزید کہا کہ گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف ائی اے اسدعمر کو پہلے آگاہ کرے گی۔‘

عدالت نے اسدعمر کی درخواست ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض کنفرم کر دی تھی۔

درج ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ دیگر اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین کیا جائے گا اگر وہ ملوث نکلے تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے لیے بننے والی خصوصی عدالت اب سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود سے متعلق مقدمے کی جیل میں ان کیمرہ سماعتوں میں چالان پیش ہونے کے بعد باقاعدہ ٹرائل کا آغاز کیا اور نو اکتوبر کو ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ 17 اکتوبر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ جبکہ ٹرائل کورٹ کا نو اکتوبر کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہونے کے بعد زیر سماعت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست