اقوام متحدہ، مغربی ممالک کی افغانوں کی نشاندہی اور تحفظ کی درخواست

پاکستان میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’افغان پناہ گزین چونکہ واپس نہیں آ سکتے اس لیے وہ افغانستان واپس نہیں جا سکتے کیوں کہ ان کی آزادی یا ان کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘

افغان پناہ گزین ٹرکوں اور گاڑیوں میں 31 اکتوبر 2023 کو چمن میں پاکستان-افغانستان سرحد پر پہنچے ہیں (اے ایف پی/عبدالباسط)

مغربی سفارت خانوں اور اقوام متحدہ نے منگل کو پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے  منصوبے میں ایسا طریقہ شامل کرے جس سے ان افغان تارکین وطن کی نشاندہی اور تحفظ دیا جا سکے جنہیں اپنے ملک میں جبر کا شکار ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان نے تارکین وطن کی بے دخلی کے آغاز کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔

جنوبی ایشیائی ملک میں مقیم 17 لاکھ سے زیادہ افغان غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں 40 لاکھ غیر ملکی تارکین وطن اور پناہ گزین مقیم ہیں۔

پاکستان میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم حکومت (پاکستان) سے جامع نظام لانے کے لیے کہہ رہے ہیں اور اگر انہیں واپس جانے پر مجبور کیا گیا تو جبر کے فوری خطرے سے دوچار افراد کا انتظام اور ان کے اندراج کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’چونکہ وہ واپس نہیں آ سکتے اس لیے وہ افغانستان واپس نہیں جا سکتے کیوں کہ ان کی آزادی یا ان کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘

دوسری جانب پاکستان میں امریکہ کے سفیر نے بھی پاکستان کے نگران وزیر خارجہ سے اس حوالے سے ملاقات کی۔

امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے منگل کو ملاقات کی جس میں اہل افغان شہریوں کی امریکہ منتقلی اور بحالی کے لیے محفوظ اور تیز کارروائی پر گفتگو ہوئی۔

قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے بھی منگل کو ایک خط میں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے غیر رجسٹرڈ افغان خواتین، جنہیں افغانستان واپسی پر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، کے کیسز پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ان کے ذرائع کے مطابق 30 ہزار کے قریب خواتین ایسی ہیں جنہیں افغانستان واپسی پر مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں اور ان خواتین نے پاکستان میں اپنی حفاظت کے پیش نظر پناہ لی تھی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں موجود غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو وطن واپسی کے لیے دی گئی ایک ماہ کی مہلت یکم نومبر کو ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد منگل کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن اور طورخم بارڈر پر واپس جانے والے افغان شہریوں کا رش نظر آیا۔

پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی شہریوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور دو نومبر سے ایسے افراد کی املاک ضبط کر لی جائیں گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پس منظر میں کیا گیا ہے اور اس مہلت میں توسیع کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔

طورخم بارڈر پر موجود انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ اظہار اللہ کے مطابق سرحد پر افغانستان واپس جانے والے افراد کا رش نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح چمن بارڈر پر موجود نامہ نگار عزیر الرحمٰن صباون نے بھی بتایا کہ اس سرحد پر بھی افغانستان واپس جانے والوں کا رش ہے اور ان کے سامنے 30 سے 40 خاندانوں نے ٹرکوں میں سوار ہوکر سرحد عبور کی۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے منگل کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دنیا کا کوئی ملک غیر قانونی افراد کو رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ لوگ واپس جائیں اور قانونی طریقے سے واپس آئیں۔ 

نگران وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی بھی ملک کا شہری ویزا لے کر پاکستان آ سکتا ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اپنے ملکوں میں واپس جانے کا وقت دیا گیا۔ رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو واپس نہیں بھیجا جا رہا۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ بھی اس سے قبل دوٹوک انداز میں کہہ چکی ہیں کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ان کے ممالک کو واپسی کا منصوبہ بلا امتیاز تمام ممالک کے غیر قانونی طورپر مقیم افراد کے لیے ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا تھا کہ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کی اپنے اپنے ممالک کو واپسی پاکستان کے خود مختار داخلی قوانین اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قانونی طور پر مقیم اور رجسٹرڈ غیر ملکیوں پر اس منصوبے کا اطلاق نہیں ہوگا۔

دوسری کابل میں طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی پالیسی ’ہراسانی‘ کے مترادف ہے۔

طورخم سرحد پر تعینات ایک سینیئر سرکاری اہلکار ارشاد مہمند نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہزاروں افغان پناہ گزین گاڑیوں اور ٹرکوں میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ منگل کی صبح سے اب تک 10 ہزار سے زائد پناہ گزین جمع ہو چکے ہیں۔

پشاور کے ایک وسیع کیمپ میں پناہ گزین والدین کے ہاں پیدا ہونے والے ذوالفقار خان نے گذشتہ ہفتے اے ایف پی کو بتایا کہ ’پاکستانی حکام کی جانب سے کسی بھی ذلت سے بچنے کے لیے میں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

اسلام آباد پولیس نے مساجد کے ذریعے بھی غیرقانونی افراد کو تنبیہ کی ہے۔

80 فیصد سے زائد افراد صوبہ خیبر پختونخوا میں شمالی طورخم سرحد کے ذریعے نقل مکانی کر چکے ہیں، جہاں افغان پناہ گزینوں کی اکثریت رہتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی 26 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ یکم نومبر کے بعد ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد کے انخلا کے معاملے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے رضاکارانہ واپسی کرنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ ہماری تمام تیاریوں مکمل ہوچکی ہیں اور حکومت نے ایسے سینٹرز بنا دیے ہیں، جنہیں ہولڈنگ سینٹرز کا نام دیا گیا ہے۔ ان سینٹرز میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو انخلا سے قبل رکھا جائے گا، انہیں میڈیکل کی سہولت دی جائے گی، کھانا پینا دیا جائے گا اور بچوں، خواتین اور بزرگوں کو عزت و احترام کے ساتھ رکھا جائے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے بارڈر طورخم پر افغان اطلاعات و ثقافت کے عرفات مہاجر نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ 17 ستمبر سے اب تک 40 دنوں میں ایک لاکھ افغان باشندے پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔‘

اگرچہ پاکستانی حکومت نے کہا کہ ان غیرقانونی افراد کے خلاف کارروائی دو نومبر سے شروع ہوگی لیکن افغان حکام کا کہنا ہے کہ ’واپس لوٹنے والے پناہ گزینوں میں سے 90 سے 95 فیصد کو زبردستی افغانستان واپس بھیجا گیا تھا۔‘

افغان طالبان کی تیاری

ادھر طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وطن واپس آنے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے زمین کی تقسیم اور ان کی مستقل آباد کاری کے لیے قائم کمیٹی نے اپنا طریقہ کار تشکیل دے دیا ہے۔

وزیر ہاؤسنگ و شہری ترقی شیخ حمد اللہ نعمانی کی سربراہی میں واپس لوٹنے والے افراد کے لیے زمینوں کی تقسیم اور ان کی مستقل آباد کاری کے لیے کمیٹی نے ایک اجلاس میں یہ مینئول تیار کرلیا۔

طالبان سربراہ کی ہدایات کے مطابق پناہ گزینوں کے مسائل کے حل کے لیے یہ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

 کمیٹی اجلاس میں ہاؤسنگ سکیموں کے لیے زمین کا تعین، زمین کی آباد کاری، منصوبہ بندی، مستقل رہائش گاہوں کی تعمیر، پناہ گزینوں کی آباد کاری اور رہائش کی تقسیم وہ تمام موضوعات تھے، جن پر مینئول کی تیاری کے دوران جامع بحث کی گئی۔

’قابل ذکر خطرہ‘

وکلا اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو وطن واپسی کے لیے حکومتی اعلانات کی شدت بے مثال ہے۔ انہوں نے اپیل کی ہے کہ انہیں مزید وقت دیا جائے۔

ہیومن رائٹس واچ نے منگل کو کہا کہ پاکستانی حکومت دھمکیوں، بدسلوکی اور حراست کا استعمال کرتے ہوئے قانونی حیثیت کے بغیر افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس جانے یا ملک بدری کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

تنظیم نے مزید کہا کہ افغانستان کی صورت حال بہت سے لوگوں کے لیے خطرناک ہے اور ملک بدری سے ان کی زندگیوں اور فلاح و بہبود سمیت سکیورٹی کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔

ایک اندازے کے مطابق اگست 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لاکھوں افغان باشندے پاکستان نقل مکانی کر چکے ہیں۔

پنجاب

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی زیر صدارت سینٹرل پولیس آفس میں آر پی اوز، ڈی پی اوز کا اہم اجلاس منگل کو منعقد ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ تین نومبر سے صوبے بھر میں مرحلہ وار غیر قانونی مقیم تارکین وطن کے انخلا کا آغاز ہو گا۔

اجلاس میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کے انخلا کے پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ وہ اداروں کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں اور غیر قانونی مقیم افراد کے انخلا کے حکومتی فیصلے پر من و عن عمل کروائیں گے۔

پنجاب پولیس کے اعلامیے کے مطابق غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو مخصوص پوائنٹس سے پنجاب کی حدود سے باہر منتقل کیا جائے گا۔ اس سے قبل انہیں منتقلی عمل کے دوران ہولڈنگ پوائنٹس پر رکھا جائے گا جبکہ منتقلی کے لیے ٹرانسپورٹ، لاجسٹکس، کھانے پینے سمیت دیگر انتظامات متعلقہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی۔

پولیس حکام نے غیرملکی شہریوں کے پنجاب سے انخلا کے دوران سکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کا بھی فیصلہ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان