سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت آج بروز بدھ دوبارہ ہوگی۔
2017 میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے فیض آباد چوک پر دھرنا دیا تھا، جو 22 روز تک جاری رہا۔ چونکہ فیض آباد دو شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع ایک اہم چوک ہے، اس لیے اس دھرنے سے وفاقی دارالحکومت میں رہنے والوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔
اس دھرنے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں کیس چلنے کے بعد فروری 2019 میں ایک تفصیلی فیصلہ جاری ہوا تھا، جسے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہی لکھا تھا۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نو نظرثانی درخواستیں دائر کی گئیں۔ درخواست گزاروں میں انٹیلی جس ادارے، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔
ان درخواستوں پر پہلی سماعت 28 ستمبر 2023 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
سماعت کے دوران زارت دفاع، پاکستان تحریک انصاف، اعجاز الحق، انٹیلی جنس بیورو اور پیمرا نے درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزرات دفاع نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ فیصلے سے عوام کو یہی تاثر جا رہا ہے کہ شاید انتہا پسندی پھیلانے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی افواج کے خلاف آبزرویشنز مبہم ہے اور ان کا موقف سنے بغیر دی گئیں، لہذا فیصلے سے افواج اور ایجنسیوں کا مورال ڈاؤن ہوا۔‘
درخواست میں مزید کہا گیا کہ جن افسران کو تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین میں لفافے بانٹتے دیکھا گیا، وہ انہیں واپسی کا کرایہ دے رہے تھے، اس لیے عدالت فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں افواج اور ایجنسیوں کے خلاف آبزرویشنز واپس لے اور فیصلے میں فوجی افسران کے خلاف کارروائی کے احکامات بھی کالعدم قرار دیے جائیں۔‘
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین سے عمل درآمد رپورٹس طلب کیں اور تحریری حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’فریقین کو حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں۔ فریقین کیس سے متعلق حقائق بیان حلفی کے ذریعے جمع کروا سکتے ہیں۔‘
عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’کیس میں تحریری جوابات 27 اکتوبر تک جمع کروائے جائیں اور کیس کی مزید سماعت یکم نومبر کو ہو گی۔‘
نظرثانی کیس میں جمع کروائے گئے تحریری جوابات
وفاق کا جواب
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تین صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا کہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 2017 میں دیے گئے دھرنے سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک ’خصوصی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ تشکیل دے دی گئی ہے۔
تین رکنی کمیٹی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹریوں پر مشتمل ہے۔ کمیٹی یکم نومبر تک وزارت دفاع کو ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جمع کروائے گی اور اگر اس حوالے سے کمیٹی کو مزید وقت درکار ہوا تو وزارت دفاع سے رجوع کرے گی۔
الیکشن کمیشن کا جواب
فیض آباد دھرنا کیس میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد رپورٹ جمع کروائی، جس میں بتایا گیا کہ ’الیکشن کمیشن نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کردیا ہے، الیکشن کمیشن کو اپنی آئینی ذمہ داریوں کا مکمل ادارک ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ ٹی ایل پی ریاست مخالف جماعت ہے، تحریک لبیک کے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر وزارت داخلہ سے رپورٹ مانگی تھی، وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے۔ ٹی ایل پی کے فنڈنگ ذرائع کا بھی جائزہ لیا گیا اور سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک کو 15 لاکھ روپے ممنوعہ ذرائع سے موصول ہوئے، تحریک لبیک پارٹی کے لیے 15 لاکھ روپے کی رقم آٹے میں نمک کے برابر ہے، تحریک لبیک کو وصول ہونے والی چھوٹی رقم کو غیر ملکی فنڈنگ قرار نہیں دیا جا سکتا، لہذا الیکشن کمیشن انکوائری کے بعد تحریک لبیک کے خلاف نوٹس واپس لے لیا تھا۔‘
پیمرا کا جواب
فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس میں پیمرا نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے تمام احکامات پر من و عن عمل کر چکے ہیں اور تمام ٹی وی چینلز کو مذہبی معاملات نشر کرنے میں احتیاط برتنے کی ہدایت کی تھی۔‘
مزید کہا گیا: ’فیض آباد آپریشن کے دوران بھی ٹی وی چینلز کو لائیو کوریج سے منع کیا تھا اور ہدایات کی خلاف ورزی پر ٹی وی چینلز کی نشریات بند کر دی تھیں۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر 24 گھنٹے بعد نشریات بحال کی گئیں۔ بعض صحافیوں نے دو نجی چینلز کی نشریات بندش کی شکایت کی تھی، پیمرا نے کسی نیوز چینل کو بند کرنے کی کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی تھی۔‘
فیض آباد دھرنا کیس کیا تھا؟
الیکشن بل 2017 کے حلف نامے کے الفاظ تبدیل کرنے پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر ایک دھرنے کا اعلان کیا تھا، جو 22 روز جاری رہا۔ اس کے بعد وزارت داخلہ، ضلعی انتظامیہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید (اس وقت ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید) کے دستخط سے ایک تصفیہ نامہ منظر عام پر آیا اور دھرنا ختم ہوا۔
چھ سال قبل 21 نومبر 2017 کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ یہ کیس ایک برس تک چلتا رہا اور 22 نومبر 2018 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا، جو چھ فروری 2019 کو سنایا گیا۔
فیصلے کے اہم نکات
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے 43 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا تھا کہ
- حکومت کا کوئی بھی ادارہ یا ایجنسی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے۔
- کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے ’کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو‘ تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور/ یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے۔
- الیکشن کمیشن آف پاکستان قانون کی خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
- آئی ایس آئی، آئی بی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس پی آر کو اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ آزادی اظہار رائے کو محدود نہیں کرسکتے اور انہیں نشر و اشاعت کے ساتھ براڈکاسٹر/پبلشر اور اخبارات کی تقسیم میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔
- آئین مسلح فورسز کے اہلکاروں کو کسی طرح کی بھی سیاسی سرگرمی، جس میں سیاسی جماعت، گروہ یا فرد کی حمایت شامل ہے، سے منع کرتا ہے۔ حکومت پاکستان کو وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حلف کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں۔
- تحریک لبیک پاکستان نے قانون کی زبان میں غلطی درست کرنے کے باوجود دھرنا جاری رکھا، جس سے جڑواں شہر مفلوج ہو گئے اور سپریم کورٹ سمیت تمام سرکاری، غیر سرکاری اداروں کا کام متاثر ہوا۔
- فیض آباد دھرنے کے دوران تحریک لبیک پاکستان کے رہنماؤں نے نفرت انگیز تقاریر کیں جبکہ میڈیا نے دھرنا قائدین کو غیر ضروری کوریج دی۔
- حکومت نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا تعاون حاصل کیا، تاہم فوج کی تعیناتی سے پہلے ہی 26 نومبر 2017 کی رات کو حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان معاملات طے پائے اور ٹی ایل پی مظاہرین وردی میں ملبوس شخص سے رقم وصول کرکے منتشر ہو گئے۔
عدالت نے فیصلے کی نقول سیکریٹری دفاع، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی بی کو فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف متاثرہ فریقین نے 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔