پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ چند افغان رہنماؤں کے غیر ضروری، غیر ذمہ دارانہ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات کے بعد پاکستان دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ معنی خیز ہے۔
انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت سے متعلق یہ غیر معمولی بیان بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں دیا۔
پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے کے بعد افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور وزیر دفاع ملا یعقوب سمیت کچھ دیگر رہنماؤں نے اپنے بیانات میں سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ پاکستان کو اس فیصلے کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کی ممالک واپس بھیجنے کا پاکستان کو مکمل قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے۔
’اس ضمن میں چند افغان رہنماؤں کے غیر ضروری، غیر ذمہ دارانہ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات افسوس ناک ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’افغان رہنماؤں کے بیانات کے فوراً بعد دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں غیر معمولی تیزی نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ ریاست پاکستان کے خدشات کی توثیق بھی کرتی ہے۔‘
پاکستان کے نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’افغان عبوری حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ افغانستان اور پاکستان دو ہمسایہ مگر خود مختار ممالک ہیں جن کے باہمی تعلقات کو رسمی طور پر پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے باہمی بھی تعلقات ایسے ہی چلائے جانے چاہئیں جیسا کہ دنیا بھر میں دیگر خود متار ممالک کے درمیان چلائے جاتے ہیں۔‘
طالبان حکومت سے توقعات
وزیراعظم کاکڑ کا کہنا تھا کہ اگست 2021 میں کابل میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد اسلام آباد کو یہ قوی امید تھی کہ پاکستان مخالف گروہوں خصوصاً کالعدم تحریک طالبان پاکستان ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی اور ’ان کو افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جاۓ گی لیکن بدقسمتی سے عبوری افغان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’دو سال میں دو ہزار 267 معصوم پاکستانی شہریوں کی جانیں اس اندوہناک خونریزی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جس کے ذمے دارتحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہیں جوافغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کر ر ہے ہیں۔‘
پاکستان میں ’دہشت گردی‘ میں ملوث شدت پسندوں کی حوالگی کا مطالبہ
نگران وزیراعظم نے افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانی جو پاکستان میں ’دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ پاکستان ایسے تمام پاکستانیوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری صورت میں ہم عبوری افغان حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی سرکوبی کے لیے ہر ممکن اقدامات عمل میں لائے گی۔‘
پاکستان میں شدت پسندی میں افغان شہریوں کا کردار
وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ ’خودکش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ اب تک 64 افغان شہری انسداد دہشت گردی کی مہم میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔‘
تمام حقائق افغان حکام کے علم میں ہیں
پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ شدت پسندی سے متعلق تمام حقائق افغان حکام کے علم میں ہیں۔ ’فروری 2023 سے تواتر کے ساتھ ہر پندرہ دن بعد پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت کو احتجاجی مراسلوں میں افغانستان سے منسلک دہشت گرد حملوں کی مکمل تفصیلات مہیا کی جارہی ہیں۔‘
تاہم پاکستان کے نگران وزیراعظم کے بقول ’افغان عبوری حکومت نے افغانستان سے اٹھنے والی ’پاکستان مخالف دہشت گردی‘ کے خلاف کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔‘
افغان حکومت پاکستان یا ٹی ٹی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’آخر کار فروری 2023 میں ایک دہشت گرد حملے میں 100 سے زائد معصوم افراد کی شہادت کے بعد (اس وقت کے پاکستانی) وزیر دفاع کی قیادت میں ایک اعلی سطح کے وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل تھے۔ اس وفد نے افغان عبوری حکومت کو پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان یا تحریک طالبان پاکستان میں سے ایک کو چننے کا دوٹوک عندیہ دیا۔‘
انہوں نے بتایا پاکستان کو مطلوب سرکردہ ’دہشت گردوں‘ کی فہرست بھی افغان عبوری حکومت کے حوالے کی گئی لیکن ان کے بقول افغان عبوری حکومت کی بار بایقین دہانیوں کے باوجود ’پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے اس رویے اور عدم تعاون کے بعد اب پاکستان نے اپنے داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کے حالیہ اقدامات نہ تو غیر متوقع اور نہ ہی حیران کن ہیں۔
پاکستان بدامنی میں ’غیر قانونی تارکین وطن کا کردار‘
نگران وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں ایک بڑا کردار غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔ ’اس لیے ریاست پاکستان نے ان افراد کو یکم نومبر سے واپس اپنے ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں غیر ملکی افراد غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جن میں اکثریت افغان شہریوں کی ہے ۔ دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث اکثر افراد کا تعلق انھی غیر قانونی تارکین وطن سے ہے۔‘
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایسے 14 لاکھ افغان جن کو عارضی قیام کے لیے ’پی او آر‘ کارڈز جاری کیے گئے ہیں کے علاوہ آٹھ لاکھ افغان شہری جن کو ’افغان سیٹزن کارڈز‘ کے تحٹ رجسٹرڈ کیا گیا ہے انہیں اس مرحلے پر کسی قسم کے دباؤ کے بغیر پاکستان میں رہنے اور کاروبار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
’یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ بے نامی املاک اور غیر قانونی سرمائے کا دہشت گردی اور جرائم سے گہرا رشتہ ہے ۔حالیہ مہم میں یہ بھی مدنظر رکھا جائے گا اور ان معاملات میں قانون کے مطابق کارروائی بھی کی جاۓ گی۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قوانین جو کہ باقی تمام ممالک کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی، آمد ورفت اور تجارت کا احاطہ کرتے ہیں افغانستان کے حوالے سے بھی یکساں نافذ کیے جائیں گے۔
’پاکستان افغانستان کی سہولت کے لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے اور جاری رکھے گا۔ اس حوالے سے ریاست پاکستان نے سمگلنگ کے انسداد کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں سے ایک منفی فہرست کا اجراء سے ملی فہرست میں وہ درآمدی اشیاء شامل کی گئی ہیں جن کی افغانستان میں طلب نہ ہونے کے برابرتھی اور جو سمگل ہوکر پاکستان میں غیر قانونی طور پر فروخت ہورہی تھیں۔‘
افغان حکومت کا رد عمل
افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم کے مختلف دعووں پر ’ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح امارت اسلامیہ اپنے ملک افغانستان میں امن چاہتی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی امن کی خواہاں ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’امارت اسلامیہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔‘
تاہم ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’البتہ پاکستان کے اندر قیام امن امارت اسلامیہ کی ذمہ داری نہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنے اندرونی مسائل خود حل کریں، اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار افغانستان کو قرار نہ دیں۔‘
دوسری جانب طالبان حکومت کے تحت وزارت خارجہ کے سیاسی نائب محمد عباس ستانکزئی نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کو بین الاقوامی اصولوں کے خلاف قرار دیا اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو خبردار کیا کہ وہ افغان مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک بند کریں۔
انہوں نے پیر کو کابل میں افغانستان کی مستقبل کی اقتصادی ترقی سے متعلق منعقدہ بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اپنی حکومت، اقوام متحدہ اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ تعاون کے بغیر افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے ایران اور پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی ’جبری ملک بدری‘ کو بین الاقوامی اصولوں کے خلاف عمل قرار دیا۔
امریکہ کا تقاضہ
اس قبل امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی میں امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ویدانت پٹیک کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان سمیت تمام اتحادی ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں کے ساتھ ان کے سلوک میں اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کو برقرار رکھیں۔
محکمہ خارجہ میں منگل کو بریفنگ کے دوران ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی تحفظ کے خواہاں افغانوں کو داخلے کی اجازت دیں اور مناسب بین الاقوامی انسانی تنظیموں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں۔‘
جب امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ویدانت پٹیل سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں چند کی ذمہ داری ٹی ٹی پی اور چند کی نئے گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے۔ اور ان حملوں میں پاکستان کی سکیورٹی کا دعوی ہے کہ انہوں نے امریکی ساختہ اسلحہ برآمد کیا ہے تو پاکستان کے ساتھ کس قسم کا انسداد دہشت گردی کا تعاون جاری ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کے جواب میں ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نومبر کے اوائل میں پاکستانی سکیورٹی فورسز اور تنصیبات پر متعدد حملوں کی اطلاعات سے آگاہی ملی ہے اور ہم متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہیں، لیکن میں اس بارے میں بالکل واضح ہونا چاہتا ہوں: امریکی افواج نے اس دوران کوئی ساز و سامان پیچھے نہیں چھوڑا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے پاکستان کے ساتھ 40 سال سے زائد عرصے سے قانون کے نفاذ، قانون کی حکمرانی، انسداد منشیات کی کوششوں اور سکیورٹی کے شعبے میں دیگر شعبوں میں تعاون کے لیے شراکت داری کی ہے اور ہم اپنے دو طرفہ تعلقات کی قدر کرتے رہیں گے۔‘
محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل سے سوال کیا گیا کہ میاں محمد نواز شریف جو واپس پاکستان آگئے ہیں اور وہ سپریم کورٹ کی جانب سے سزا یافتہ بھی ہیں تو اس پر امریکہ کا کیا موقف ہے؟
اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ کسی بھی ملک میں، ہم کسی ایک پارٹی یا دوسری حکومت کے حامی نہیں ہیں اور کسی بھی انتخابات کے تناظر میں، یہ بات جاری رہتی ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ انداز میں منعقد ہوں اور اس ملک میں رہنے والے لوگوں کی مرضی کی عکاسی کریں۔‘