غزہ کی پٹی سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ انتہائی دل خراش اور اذیت ناک ہیں۔
کئی دنوں سے چاہ کر بھی ان واقعات کو بیان کرنا میری ہمت سے بڑھ کر تھا۔ ابھی بھی میں بوجھل دل کے ساتھ اس انسانی المیے پر لکھنے کے لیے تیار ہوئی ہوں۔
غزہ کی پٹی سے جس طرح کی ویڈیوز اور دیگر خبریں دیکھ کر کوئی انسان چین سے بیٹھ ہی نہیں سکتا اور وہاں جس طرح سے وحشیانہ بمباری کا سلسلہ گذشتہ ایک ماہ سے زائد کے عرصے سے چلا اس میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اپنے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان اموات میں اکثریت بچوں کی ہے۔ وہ بچے جنہیں معلوم نہیں کہ وہ کیوں مر رہے ہیں، کس کے کہنے پر مر رہے ہیں اور کون انہیں مار رہا ہے۔
غزہ کی پٹی سات اکتوبر کو شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں کے بعد ایک دفعہ پھر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
غزہ دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی کم و بیش 23 لاکھ ہے۔
یہ 23 لاکھ لوگ مصر اور اسرائیل کے درمیان صرف 21 کلومیٹر طویل چھوٹی سے پٹی پر مشکل سے رہ رہے ہیں۔
ان 23 لاکھ میں سے نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔ عالمی ادارے یونیسف کے مطابق قریباً 10 لاکھ بچےغزہ کی پٹی میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی عمریں 15 سال سے بھی کم ہیں۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ دنیا کے ان علاقوں میں بھی شامل ہے جہاں دنیا کی بد ترین بے روزگاری ہے۔ جبکہ غزہ میں رہنے والے 80 فیصد لوگ سخت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہاں رہنے والے پینے کا صاف پانی، بجلی، اور مناسب خوراک سے ہی محروم نہیں بلکہ طبی سہولیات کے حوالے سے انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں۔
اب ان حالات میں گذشتہ مہینے حماس کی جانب سے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد اسرائیلی فورسز امریکی حمایت کے ساتھ بے قابو ہو چکی ہیں اور غزہ کی پٹی میں زندگی تنگ کردی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے گذشتہ ایک ماہ میں اب تک تقریباً 11 ہزار فلسطینی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے اور اس کی یہ جارحیت ابھی بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
غزہ پٹی جسے دنیا بھر میں ایک کھلی جیل بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ علاقہ چاروں اطراف سے بند ہے اور یہاں کے رہائشیوں کی زندگی مکمل طور اسرائیلی فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ حالیہ کشیدگی میں بھی عام فلسطینی سب سے زیادہ متاثر نظر آرہے ہیں۔
غزہ اس وقت بدترین انسانی المیے سے گزر رہا ہے۔ سات اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل نے نہ صرف غزہ کے شہریوں پر زمین تنگ کر دی بلکہ ان کے جینے کے تمام ذرائع کو بھی بند کردیا ہے۔
اسرائیل نے گذشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے میں غزہ میں خوراک کی سپلائی، تیل، بجلی اور پانی بھی بند کردیا ہے۔
غزہ کے لوگ جہاں ایک طرف بدترین بمباری کا شکار ہیں تو دوسری جانب بھوک و افلاس ان کی جانیں نگل رہی ہے۔ اس ساری صورت حال میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
اسرائیل غزہ کوصفحہ ہستی سے مٹانے پرتلا ہوا ہے اور علاقے میں غذا، ادویات اورخوراک ختم ہونے کے باعث زندگی مشکل ترہو گئی ہے۔
محصور علاقے میں قابض فوج داخل ہو گئی ہیں اور زمین، فضا اور سمندر سے حملے بھی جاری ہیں۔
غزہ میں ہرطرف عمارتوں کے ملبے کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور اسرائیل کی جانب سکولوں اور ہسپتالوں میں پناہ لیے ہوئے اپنے ہی شہر میں مہاجر بھی محفوظ نہیں۔ اور تو اور کوئی جنگی اصولوں پر بھی عمل پیرا نہیں یعنی کسی بھی بدترین جنگ میں بھی خواتین و بچوں سمیت ہسپتالوں حملوں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں لیکن اسرائیل ان اصولوں کا پابند نہیں۔
دوسری جانب نام نہاد اقوام عالم جو دنیامیں امن کے قیام کی ذمہ دار ہے وہ اس بدترین انسانی المیے میں اب تک کوئی واضح کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے میں مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ اسرائیلی لابی اسے ایسا کرنے سے روک رہی ہے۔
اسرائیل امریکی شہہ پر معصوم فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہے جبکہ امت مسلمہ ابھی بھی کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا روتے چیختے فلسطینی بچوں کی آوازوں کے عادی ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ پراسرائیلی جارحیت پر کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے تاکہ فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کے لیے کوئی پیش رفت کی جا سکے۔
غزہ کی صورت حال نہایت تشویش ناک ہے، خاص طور پر وہاں محصور بچے نہایت کربناک کیفیت میں مبتلا ہیں۔
یونیسیف کے مطابق غزہ میں 10 لاکھ بچے ناقابل بیان وحشت کی ایک اور رات کے بارے میں انتہائی فکرمند ہیں۔
اقوام عالم خاص طور پر مسلم امہ کو اس انسانی المیے پر سنجیدگی سے کام کرنا ہو گا وگرنہ جو آگ آج غزہ پٹی میں معصوم شہریوں کو جھلسا رہی ہے وہ آگ کسی بھی وقت ان کے دامن میں بھی گر سکتی ہے۔
عالمی قوتیں بھی اس صورت حال پر سخت ایکشن لیں اور اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم پر لگام ڈالیں۔
ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور یہ فلسطینی بچے جو آج محصور ہوں وہ کل کو نئے حماس کی صورت میں ان کے سامنے اپنے غموں کا حساب مانگ رہے ہوں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔