انڈیا کے نیوز چینل ’انڈیا ٹی وی‘ نے صحافتی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کی کراچی میں آٹھ نومبر کو غزہ سے اظہار یکجہتی مارچ کی ایک ویڈیو کے بعض حصوں کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈا میں استعمال کیا ہے۔
انڈیا ٹی وی نے ناصرف جھوٹ بول کر ناظرین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اس نے انڈپینڈنٹ اردو کی ویڈیو کے کچھ حصوں کو بغیر اجازت استعمال کیا۔ اس رپورٹ میں کئی ایسے مناظر بھی شامل ہیں جن کا انڈپینڈنٹ اردو کی ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں۔
انڈیا ٹی وی کی اس ’ایکسکلوسیو‘ رپورٹ میں بے بنیاد الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان کی ’جہاد پروڈکشن‘ میں بچوں کو حماس کی طرز پر تربیت دی جا رہی ہے۔
اس دوران ٹی وی چینل نے کراچی میں ہوئے غزہ مارچ کی فوٹیج چلائی، جس میں بچے مختلف طریقوں سے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے تھے۔ تاہم ٹی وی چینل نے غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ بچے لڑائی کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
درحقیقیت یہ جماعت اسلامی کے زیر انتظام غزہ کے بچوں سے یکجہتی کے لیے مارچ تھا، جس میں بچوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تاہم ٹی وی چینل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ’پاکستان کے بچے حماس کے آتنکی بن گئے۔‘
ویڈیو میں مزید کہا گیا: ’انڈیا نے پاکستان کو وارننگ دے دی کہ بارڈر پر جو کر رہا ہے اس کا خمیازہ اسے دیوالی کے بعد بھگتنا پڑے گا۔۔۔ کراچی جیسے شہروں میں کھلم کھلا فدائین فیکٹریاں لگا دی گئیں، جس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو حماس جیسے آتنکی (عسکریت پسند) بنا کر نکالا جا رہا ہے۔‘
یہی نہیں انڈین رپورٹر کہتے سنائی دیتے ہیں کہ سات اکتوبر کی طرح پاکستان کے بچوں نے کیا قتل عام۔‘
رپورٹ میں ایک سکول جانے والے بچے کی والدہ کی انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کو غلط رنگ دیا گیا۔
مذکورہ خاتون فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے لیے آواز اٹھانے کو ’بچوں کی سکول کی تعلیم کا حصہ‘ قرار دے رہی تھیں، لیکن ٹی وی چینل نے تعلیم کی بجائے ’جہاد کی تربیت‘ کا غلط پہلو دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظاہرے میں شریک بچوں کو شدت پسندوں سے مشابہہ قرار دینے پر تلے ٹی وی چینل نے اس بات کو صریحاً نظر انداز کر دیا کہ فوٹیج میں بچے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل فلسطین میں بچوں کا قتل عام کر رہا ہے اور وہ ’اظہارِ یکجہتی‘ میں مظاہرہ کرنے سڑکوں پر نکلے ہیں۔
ٹی وی چینل کی رپورٹ میں مظاہرے میں شامل بچیوں کو بھی شدت پسندوں کا روپ دے کر پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی اور اس بے بنیاد دعوے کو تقویت دینے کے لیے نامہ نگار صالحہ فیروز خان کو دیکھایا گیا جو ایک سکول جانے والی بچی سے ریلی میں شرکت کی وجہ پوچھ رہی ہیں اور وہ فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بتاتی ہے۔
بغیر کسی احتساب کے ڈر کے ٹی وی چینل نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس مشق میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاسی رہنما، سکول ٹیچر، انتظامیہ حتیٰ کہ فوج تک شامل تھی۔
حالانکہ ریلیوں اور مظاہروں کی سکیورٹی پر پولیس کا تعینات ہونا دنیا بھر میں معمول ہے۔
نامہ نگار صالحہ فیروز خان نے انڈین نیوز چینل کی رپورٹ پر اپنے ردعمل میں بتایا کہ ’آٹھ نومبر اور بدھ کا دن تھا جب جماعت اسلامی کی جانب سے بچوں کا غزہ مارچ منعقد کیا گیا جس کا نعرہ we are with gaza children تھا۔‘
صالحہ کے مطابق مارچ کا مقصد غزہ میں معصوم بچوں کے قتل عام پر اظہار افسوس اور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا۔
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مارچ میں ناصرف طالب علم بلکہ ان کے والدین اور اساتذہ بھی شریک تھے۔ بچوں اور سب کا مطالبہ تھا کہ فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکا جائے لیکن انڈین چینل نے مارچ پر پروپیگنڈا کیا اور انڈپینڈنٹ اردو کے فیس بک لائیو کی فوٹیج کو استعمال کرتے ہوئے یہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں حماس کے ٹریننگ کیمپ کھل گئے ہیں۔
صالحہ نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کے کچھ اصول ہوتے ہیں لیکن نیوز چینل نے بغیر ایونٹ کو سمجھے اور بغیر اجازت کے اپنی مرضی کی خبر چلائی، جس سے ناصرف صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ کس طرح غلط خبروں کو پھیلایا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کا اس حوالے سے موقف ہے کہ وہ اس پروپیگنڈا میں اپنی ویڈیو کے بعض حصوں کے استعمال کو انتہائی سنجیدگی اور تشویش سے دیکھتا ہے اور مذکورہ ٹی وی چینل سے اس غیر ذمہ دارانہ صحافتی رویے، بغیر اجازت فوٹیج چلانے کی وضاحت اور معافی طلب کرتا ہے۔