اسرائیلی فوجی کابینہ نے منگل اور بدھ کو امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے امور کے سینیئر مشیر بریٹ میک گرک کی موجودگی میں دونوں جانب سے خواتین اور بچے قیدیوں کی رہائی کے لیے ابتدائی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں کئی ملاقاتیں کیں لیکن اسرائیل کی طرف سے کچھ رکاوٹیں حماس کے ساتھ ممکنہ معاہدے کی حتمی منظوری میں حائل ہیں۔
اس ممکنہ معاہدے کا تعلق بنیادی طور پر سیز فائر کی مدت سے ہے جسے اسرائیل بہت مختصر بنانے کی کوشش کر رہا ہے کیوں کہ اسے خدشہ ہے کہ حماس فائر بندی کی اس مدت کو دوبارہ منظم ہونے اور اپنی صفیں درست کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
اگرچہ اسرائیلی اس معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور نہیں کر پائے لیکن ایک سے زیادہ اسرائیلی، امریکی اور فلسطینی عہدے داروں نے تصدیق کی کہ اس پر عمل درآمد تقریباً یقینی ہے۔
اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی ’شاباک‘ کے سربراہ رونن بار قطر میں اپنی ملاقاتوں کے بعد مصر گئے تاکہ امریکی، قطری اور مصری نمائندوں کے ساتھ معاہدہ طے کیا جا سکے جس کا مقصد حماس کی قید میں موجود افراد کی عالمی تنظیم ریڈ کراس کی نگرانی میں رفح کراسنگ کے ذریعے رہائی کے لیے سیکورٹی معاملات اور وقت کے طریقہ کار کو ترتیب دینا تھا۔
اسرائیلی رکاوٹ
فریقوں کے درمیان اس معاہدے کا متن ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ قبل طے پایا تھا لیکن اسرائیل فائر بندی کے لیے چند روز کی ڈیڈ لائن دینے سے انکار اور سیز فائر کا اعلان نہ کرنے کی شرط رکھنے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، جو حماس کی تحریک کو ختم کرکے جنگ کے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔
تاہم اسرائیلی اہداف کے حصول میں دشواری کے تناظر میں فریقین واپس مذاکرات کی میز پر آئے اور دونوں جانب سے شرائط کے بارے میں مفاہمت پر پہنچے جن میں اسرائیلی جیلوں میں قید 200 فلسطینی بچے اور 70 سے زائد خواتین کی رہائی شامل ہے۔
ان کے بدلے میں اسرائیلی خواتین قیدیوں اور بچوں کو رہا کیا جانا ہے۔ حماس کی قید میں اسرائیلی بچوں اور خواتین کی تعداد 80 بتائی جاتی ہے۔
ایک جامع معاہدے پر عمل درآمد کو تیز کرنے کی اسرائیلی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن اور وزیر صحت ایریل بوسو نے حماس کی قید میں اسرائیلی شہریوں کے خاندانوں کے ایک گروپ کے ہمراہ جینیوا میں عالمی تنظیم ریڈ کراس کی صدر سے ملاقات کی۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کی صدر مرجانا ایگر اور عالمی ادارہ صحت کے سیکریٹری جنرل ٹیڈروس اور دیگر حکام قیدیوں کی صورت حال جاننے اور ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے لیے ایک معاہدہ تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں یہ سب شامل ہیں۔
ایریل بوسو کے مطابق: ’ریڈ کراس کو غزہ کے قیدیوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، انہیں ان کی تعداد اور ٹھکانے کا بھی علم نہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ یہ ریڈ کراس کا فرض ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے تبادلے سے پہلے یہ سب معلومات حاصل کریں۔‘
دباؤ اسرائیل کے لیے پریشان کن
اپنی مسلسل ملاقاتوں کے دوران فوجی کابینہ نے اس معاہدے میں شامل قیدیوں کی تعداد اور اس کے بدلے اسرائیل کی جانب سے انسانی بنیادوں پر سہولیات فراہم کرنے پر اتفاق کرنے کی کوشش کی۔
اسرائیل کے سیاسی رہنماؤں نے معاہدے کے تحت تمام بچوں اور خواتین کو آزاد کرنے کے لیے حماس کی نیت پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔
ایک اسرائیلی عہدے دار کا خیال ہے کہ ’حماس قیدیوں کے اہل خانہ اور ان کے ذریعے اسرائیل میں عوام اور حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اسرائیلی فیصلہ سازوں کے جائزے کے مطابق حماس اپنی نفسیاتی جنگ کو بھی تیز کرے گی اور ایک اور چونکا دینے والی ڈاکومنٹری شائع کرے گی۔
اسرائیلی سکیورٹی سروسز کے مطابق قیدیوں کے معاملے پر تل ابیب جو فیصلے کرے گا وہ فوجی آپریشن کو جاری رکھنے کا بھی فیصلہ کرے گا۔
سکیورٹی سروسز کے مؤقف کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ وہ صرف مختصر ترین فائر بندی سے قیدیوں کے معاملے کو حل کرنے کی اجازت دے تاکہ غزہ کی پٹی کے جنوب تک لڑائی جاری رکھی جا سکے جہاں حماس کی زیادہ تر قیادت مقیم ہے۔
فوجی امور کے ماہر یوو لیمور کا کہنا ہے کہ جب تک قیدیوں کا معاملہ جاری رہے گا، اسرائیلی فوج کے لیے کارروائی کرنے کے امکانات زیادہ ہیں اور اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے اس کا فائدہ اٹھانا ہے۔
لیمور نے مزید کہا: ’اسرائیل اپنا حفاظتی معیار برقرار رکھے گا اور پٹی میں مستقل طور پر سکیورٹی سنبھالے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن انہوں ابھی تک اس معاملے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہے کہ غزہ پر کون حکومت کرے گا اور مستقبل میں اسرائیل اس کے ساتھ کوئی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے یا نہیں؟
والدین کا دباؤ اثر انداز ہو سکتا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی قیادت کی دھمکیوں اور حماس کو ختم کرنے کے ہدف کو حاصل کیے بغیر غزہ کے اندر لڑائی جاری رکھنے اور جنگ کو ختم نہ کرنے پر اصرار کے باوجود اسرائیل کی داخلی صورت حال قیدیوں کے خاندانوں کے غصے اور احتجاج سے متاثر ہو رہی ہے۔
قیدیوں کے خاندان اور ان کے دسیوں ہزار حامی ایک جامع معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں اور وزیر اعظم بن یامین کو جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں۔
نتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ ان کے خاندانوں کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کے ذمہ دار ہیں جبکہ بہت سوں کو امید ہے کہ سب بحفاظت واپس لوٹ آئیں گے۔
اس دباؤ نے تل ابیب میں سکیورٹی اور فوجی قیادت کو ایک ایسا منصوبہ بنانے کے طریقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا ہے جو اسرائیل کو اس جنگ میں کامیابی کی ضمانت دے جب کہ سابق فوجی اہلکاروں اور ماہرین نے شبہ ظاہر کیا کہ اسرائیل پٹی میں سرنگوں کے لمبے اور شاخ در شاخ نیٹ ورک کی وجہ سے شاید ہی حماس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو پائے گا۔
دوسری جانب مزید بمباری قیدیوں کی موت کا باعث بننے گی اس پر تل ابیب کو واشنگٹن کے تین ہفتوں سے کم مدت کے اندر جنگ ختم کرنے کے دباؤ کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے اہل خانہ کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ العربیہ