دیہی کے پی میں اکثر ووٹرز ماضی کی کارکردگی نہیں دیکھتے: سروے

انڈپینڈنٹ اردو نے ایک سروے کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ صوبے کے مرد و خواتین امیدواروں کو کس بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔

19 دسمبر 2021 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پشاور کے ایک پولنگ سٹیشن پر ایک شخص ووٹ ڈالنے کے لیے موجود ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق دیہی علاقوں کے ووٹرز کی اکثریت ووٹ دیتے وقت امیدواروں کی ماضی کی سیاسی کارکردگی پر غور یا تحقیق نہیں کرتی تاہم الیکشن میں حق رائے دہی استمعال کرنے سے قبل ایک بڑی تعداد پارٹی کے منشور کا ضرور مطالعہ کرتی ہے۔

یہ انکشاف انڈپینڈنٹ اردو کے ایک حالیہ سروے میں ہوا جس میں چھ سوالات کیے گئے اور انہی سوالات کی بنیاد پر نتائج کا تجزیہ کیا گیا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینے سے پہلے کیا سوچا جاتا ہے۔

اس سروے کے لیے مرد و خواتین سمیت 74 افراد شامل تھے جن میں 53 مرد اور 21 خواتین شامل تھے۔

یہ سروے خیبر پختونخوا کے علاقوں لوئر دیر، باجوڑ، ضلع خیبر، کرم اور ضلع بونیر کے مختلف دیہات کے افراد کی آرا پر مشتمل ہے اور اس میں رینڈم سامپلنگ کا طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے جبکہ سروے میں شامل افراد کی عمریں 18 سال سے 80 سال ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔

اسی طرح انڈپینڈنٹ اردو نے یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ کسی بھی انتخابی امیدوار کے بارے میں معلومات، ماضی کی کارکردگی، ماضی میں اسمبلی میں قانون سازی میں حصہ لینے اور دیگر معاملات کے بارے میں معلومات  کی حصول کسی بھی ووٹر کے لیے کتنا آسان یا مشکل ہے۔

سروے کے کیا نتائج رہے؟

کسی بھی انتخابی امیدوار کو ووٹ دینے سے پہلے کیا کبھی ان کی ماضی کی کارکردگی دیکھنے کے لیے معلومات حاصل کرنے کی جستجو کی ہے، تو اس کے جواب میں 61 فیصد سروے میں شامل مردوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر یا الیکشن کمیشن اور یا اسمبلی ویب سائٹ پر جا کر امیدوار کی ماضی کی کارکردگی کے بارے میں معلومات حاصل کی ہوں۔

اسی طرح صرف 38 فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے امیداور کی کارکردگی جاننے کی کوشش کی ہے لیکن ان افراد میں کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے باقاعدہ طور پر اسمبلی ویب سائٹ پر موجود امیدوار کی ماضی میں قانون سازی میں حصہ لینے، اسمبلی میں حاضری اور دیگر کارکردگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہوں۔

سروے میں شامل افراد میں 46 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں انٹرنیٹ موجود ہے جبکہ 38 فیصد نے بتایا کہ ان کے گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے اور اس میں زیادہ تر ایسے افراد تھے جب کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی کیبل موجود ہی نہیں ہے۔

تاہم سات فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں انٹرنیٹ لائن تو موجود نہیں ہے لیکن فور جی استعمال کر کے وہ انٹرنیٹ کی ضرورت کچھ حد تک پوری کرتے ہیں۔

کیا سوشل میڈیا مہمات سے دیہی علاقوں میں سیاسی رجحان بدلتا ہے؟

اسی سے جڑے سوال کے کیا سوشل میڈیا پر سیاسی مہمات سے دیہی علاقوں میں ووٹ کا رجحان تبدیل ہونا ممکن ہے، تو اسی کے جواب میں 71 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہے جبکہ 28 فیصد کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا مہمات کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

تاہم سروے میں شامل 69 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ووٹ دینے سے پہلے وہ پارٹی کا منشور پڑھتے ہیں اور اس کے بعد ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں جبکہ 30 فیصد کہا کہنا تھا کہ وہ منشور دیکھتے ہی نہیں ہیں۔

جو افراد منشور نہیں دیکھتے، ان میں سروے میں شامل 45 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ’منشور میں سب جھوٹ لکھا‘ ہوتا ہے، تو اسی وجہ سے وہ اس کو پڑھنے پر وقت ضائع نہیں کرتے جبکہ 27 فیصد کا کہنا تھا کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ منشور نہیں پڑھ سکتے اور 18 فیصد کا کہنا تھا کہ پڑھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے جبکہ نو فیصد کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی کمی کی وجہ سے منشور تک رسائی نہیں ہے۔

خواتین کیا کہتی ہیں؟

اسی سروے میں 21 خواتین سے یہی سوالات پوچھے ہیں اور خواتین کی جانب سے دیے گئے جوابات مردوں سے قدرے مختلف ہیں اور ووٹنگ ٹرینڈ یعنی ووٹ کی ترجیحات بھی مختلف ہیں۔

اس سروے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے لوئر دیر، ضلع کرم، ضلع خیبر، ضلع ملاکنڈ، اور ضلع بونیر کی خواتین سے سوالات پوچھے ہیں۔

اس سروے میں حصہ لینے والے 57 فیصد خواتین یعنی 20 میں سے 12 نے بتایا کہ ان کے گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے جبکہ باقی کے پاس انٹرنیٹ موجود نہیں ہے۔

لیکن جن کے پاس موجود نہیں ہے، ان میں سے چھ نے بتایا ہے کہ وہ موبائل پر فور جی استعمال کرتی ہیں۔

ووٹ کی ترجیحات اور امیدواروں کی ماضی کی کارکردگی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں 38 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ امیدوروں کی ماضی کی کارکردگی کو دیکھتی ہیں جبکہ 62 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کو اس میں کوئی دلچپسی نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر وہ گھر کے مردوں (شوہر، بھائی، والد) کے فیصلے کے مطابق امیدوار کو ووٹ دیتی ہیں۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر سیاسی مہمات میں دلچپسی اور ان کو فالو کرنے کے حوالے سے 81 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر سیاسی مہمات کو فالو نہیں کرتیں جبکہ 38 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی مہمات اور سیاسی تقریروں کو سنتی ہیں۔

پارٹی منشور کو پڑھنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں 66 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ منشور کو نہیں پڑھتیں اور ان میں سے زیادہ تر خواتین ایسی تھیں کہ ان کو پتہ بھی نہیں تھا کہ پارٹی منشور کیا ہے جبکہ 33 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی منشور کو پڑھتی ہیں اور اس کے مطابق کسی بھی امیدوار کو ووٹ دیتی ہیں۔

سروے میں ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ کیا انٹرنیٹ میں آگاہی اور امیداورں کی ماضی کی کارکردگی کے بارے میں معلومات دینے سے ووٹ دینے کے رجحان میں تبدیلی ممکن ہے، جس کے جواب میں 80 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہے کیونکہ آگاہی جتنی ہوگی تو لوگ بہتر امیدوار کا چناؤ کریں گے جبکہ 20 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ رجحان میں تبدیلی ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ گھر کے مردوں کے کہنے پر امیداور کو ووٹ دیتی ہیں۔

امیدواران سے کیا مطالبہ کریں گی؟ خواتین سے سوال

کسی بھی امیدوار سے آئندہ عام انتخابات میں کیا مطالبہ کریں گی؟ اس سروے میں شامل خواتین نے مختلف مطالبات بتائے جس میں مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبے، امن، انٹرنیٹ اور موبائل ٹاور کی فراہمی جبکہ بعض نے بے روزگاری کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

ووٹ کے رجحان کے حوالے سے سب سے زیاہ خواتین یعنی 21 میں 17 کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کے رجحان میں تبدیلی ممکن ہے اور خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی صائمہ منیر کہتی ہیں کہ ایسا تو ابتدا سے ہی ہو رہا ہے کہ خواتین گھر کے مردوں کی مرضی پر کسی امیدوار کو ووٹ دیتی ہیں۔

صائمہ منیر پشاور میں عورت فاؤنڈیشن کے ساتھ وابستہ ہیں اور گذشتہ دو دہائیوں سے خواتین کی حقوق پر کام کرتی آ رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے: ’عورت کی ووٹ کی اہمیت صرف اس وقت ہوتی ہے جب مردوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن شہری علاقوں میں یہ رجحان کچھ حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔‘

 انہوں نے بتایا، ’سروے میں خواتین کی جانب سے پارٹی منشور کم پڑھنے کا رجحان اس لیے ہے، یہ منشور تو پارٹی کے اپنے ورکرز بھی نہیں پڑھتے تو خواتین کیا پڑھیں گے جبکہ پارٹی منشور تو بنا دیتی ہے لیکن اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔‘

صائمہ منیر نے بتایا، ’چاہے سیاست ہوں یا کوئی بھی معاملہ، عورت کی رائے کو ہم اہمیت دی جاتی ہے اور یہی حال ووٹ دینے میں بھی ہے کہ خواتین اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتی اور اسی پر کام کی ضرورت ہے۔‘

’علاقے میں انٹرنیٹ کیبل ہی موجود نہیں، اچھا سن کے ووٹ دیتا ہوں‘

’نہ کبھی انٹرنیٹ پر انتخابی امیدواروں کی ماضی کی کارکردگی جاننے کی کوشش کی ہے اور نہ اسمبلی میں کارکردگی کا پتہ ہے۔ سوشل میڈیا پر سیاسی مہمات کو بھی فالو نہیں کرتا ہوں بلکہ انتخابات سے پہلے قریبی لوگوں سے جو سنتا ہوں تو اسی کی بنیاد پر انتخابی امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہوں۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کی ضلع لوئر دیر کی دور افتادہ تحصیل میدان سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ نصیب گل کا، مرکزی بازار تیمرگرہ میں ہتھ ریڑھی لگا کر محنت مزدوری کرتے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں انٹرنیٹ ہے اور نہ ان کے پاس سمارٹ فون ہے جہاں پر وہ سیاسی مہمات اور انتخابی امیدواروں کی کارگردگی کے بارے معلومات حاصل کر سکیں بلکہ اپنی محنت مزدوری کر کے گھر کا چولہا جلانے کے کوشش کرتے ہیں۔

نصیب گل نے بتایا، ’انتخابات سے قبل ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ فلاں سیاسی جماعت کے میرے علاقے سے یہ امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور قریبی ساتھی اور رشتہ دار جن امیدوار کے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہوں، تو میں بھی انہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہوں۔‘

نصیب گل نے بتایا کہ ان کے علاقے میں انٹرنیٹ کیبل موجود نہیں ہے۔

’اگر کیبل بھی ہوتا تو میرے طرح غریب بندہ انٹرنیٹ لگا کر کیا کرے گا کیونکہ میں تو پورا دن محنت مزدوری میں مصروف رہتا ہوں اور شام کو گھر جا کر سو جاتا ہوں۔

نصیب گل نے بتایا، ’اب تک جب بھی ووٹ دیا ہے تو اسی بنیاد پر دیا ہے کہ لوگ اس امیداور کے بارے میں کتنی مثبت رائے رکھتے ہیں۔ باقی الیکشن کمیشن یا اسمبلی کی ویب سائٹ وغیرہ کا مجھے نہیں پتہ کہ اس پر امیداور کی کارگردگی اور ماضی میں قانون سازی کے بارے میں معلومات موجود ہوتی ہیں۔‘

دوسرے جانب ضیااللہ کا تعلق بھی لوئر دیر سے ہے اور گذشتہ تقریبا چار انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف پارٹی کا منشور دیکھتے ہیں اور اسی کے مطابق کسی امیداور کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

تاہم ضیااللہ سے جب انٹرنیٹ پر موجود امیداوروں کی ماضی کی کارگردگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسی کوشش کبھی نہیں کی ہے کہ امیدوار کے بارے میں معلومات حاصل کی ہوں کہ ان کی اسمبلی میں کارکردگی کیسی تھی۔

ضیااللہ نے بتایا، ’میرا نظریاتی تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اور میری پارٹی کی طرف سے جو بھی امیدوار کھڑا کیا جاتا ہے تو میں اسی کو ووٹ دیتا ہوں لیکن پارٹی منشور کو ضرور پڑھتا ہوں۔‘

امیدوار کی کارکردگی کے بارے میں معلومات تک رسائی کتنی ہے؟

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں الیکشن کمیشن اف پاکستان کی ویب سائٹ پر انتخابات کے حوالے سے ڈیٹا موجود ہوتا ہے جبکہ صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں کی ویب سائٹ پر ہر ایک رکن اسمبلی کی کارکردگی کا ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ڈیٹا میں یہ دیا گیا ہوتا ہے کہ فلاں رکن نے کتنے قوانین میں حصہ لیا ہے، کتنی قراردادیں اسمبلی میں پیش کی ہیں اور ساتھ میں یہ ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے کہ اس رکن نے اسمبلی میں کتنے سوالات پوچھے ہیں اور ساتھ میں ان کی اسمبلی میں حاضری کتنی رہی ہے۔

تاہم الیکشن کمیشن سمیت اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا تک رسائی سمیت اس کو سمجھنے کے لیے تھوڑا بہت تجربہ چاہیے ہوتا ہے کیونکہ ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جس کی عام لوگوں کو سمجھ کم آتا ہے۔

اسی حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے کمیونی کیشن ڈائریکٹر سہیل احمد سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پچھلی کئی دہائیوں سے انتخابات کے نتائج سمیت دیگر ڈیٹا ویب سائٹ پر موجود ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ڈیٹا تک رسائی تو ممکن ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شاید عام بندے کو اس ڈیٹا کی سمجھ نہ آئے اور اسی وجہ سے اس ڈیٹا کو آسان الفاظ میں لانے کے لیے دیگر اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔

انہوں نے بتایا، ’الیکشن کمیشن قانونی طور پر یہ نہیں کر سکتا کہ کسی سیاسی جماعت کے امیدوار کی evaluation کریں کہ کون کتنا برا اور کون اچھا ہے لیکن کچھ غیر سرکاری ادارے اور میڈیا اس ڈیٹا کو عوام کی آگاہی کے لیے آسان الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں تاکہ ووٹرز کو بہتر امیدوار کی چناؤ میں آسانی ہوں۔‘

سہیل کے مطابق: ’الیکشن کمیشن کی جو عوامی آگاہی کی ذمہ داری ہے، وہ ہم کر رہے ہیں جیسا کے ووٹرز کو تعلیم دینا کہ ووٹ کا استعمال کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے جبکہ ساتھ میں کچھ پسماندہ کمیونٹیز ہیں جن کو ہم ووٹ کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا، ’جینڈر کے اوپر بھی ہم کام کرتے ہیں اور عوام میں یہی آگاہی پھیلاتے ہیں کہ خواتین کی ووٹ اسی طرح ضروری ہے جس طرح مردوں کا ووٹ ہے جبکہ میڈیا کے ساتھ بھی وقتاً فوقتاً رابطے اور ان کو ٹریننگ بھی دیتے ہیں کہ کیسے بہتر طریقے سے انتخابات کی کوریج ممکن ہوسکے۔‘

خیبر پختونخوا میں ووٹ دینے کے پیچھے بظاہر منطق کیا ہے؟

 ڈاکٹر شجاع احمد پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سائکالوجی کے پروفیسر ہیں اور خیبر پختونخوا میں ووٹ دینے کے رجحان اور نفسیات پر تحقیق بھی کر رہے ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے خیبر پختونخوا کے عوام میں ’ہیروئزم‘ والا عنصر بہت دیکھا ہے یعنی کسی شخص کو ہیرو بنا کر اسی کو ووٹ دینا شروع کر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا ، ’اس رجحان جس میں کسی شخص کی ٹھیک بات کو تو ٹھیک جبکہ غلط بات کو بھی ٹھیک سمجھنے لگتے ہیں اور یہ ملک سمیت خیبر پختونخوا میں بھی موجود ہے۔

’اس کی وجہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے اور اس پر کام بھی کر رہا ہوں کہ یہ کیسے اس خطے میں پروان چڑھا ہے جس میں ایک ’ہیرو‘ ایک بیانیہ بناتا ہے اور وہ عوام کو بتاتا ہے کہ آپ لوگ مظلوم ہیں اور آپ پر ظلم ہو رہا ہے اور یہی ہیرو کہتا ہے کہ وہ عوام کو اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہی ہیروئزم عوام میں پروان چڑھتا ہے اور پھر عوام اسی ’ہیرو‘ کی بات پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر ووٹ دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح دوسرا رجحان خاندان کا بھی ہے کہ یہاں پر اگر کسی کے خاندان کا بندہ انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو اسی بنیاد پر ووٹ دیا جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اگر اپنے خاندان کا کوئی بندہ جیت جائے تو ان کو فائدہ ہوگا۔

ڈاکٹر شجاع احمد نے کہا کہ اسی طرح خیبر پختونخوا میں پنجاب اور اور دیگر صوبوں کی طرح برادری والا رجحان تو نہیں ہے لیکن خاندانوں کا کہنا ہے کہ ایک ہی خاندان کئی دہائیوں سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور لوگ ان کو ووٹ بھی دیتے ہیں۔

’جبکہ تیسرا رجحان قومیت کی بنیاد پر بھی ہوتا ہے اور قوم پرستی کی بنیاد پر کسی بھی امیداور کو ووٹ دینے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے صوبے کی بڑی پارٹی کو خیبر پختونخوا میں اس طرح قبول نہیں کیا جاتا ہے اور یہ ہم ماضی میں انتخابات سے پتہ لگا سکتے ہیں۔‘

سابق اراکین کا کیا کہنا ہے؟

 محسن داوڑ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے سابق رکن قومی اسمبلی تھے اور وہ جس علاقے سے منتخب ہوئے تھے، وہ ایک دور دراز علاقہ ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ مشکل موضوع ہے اور خیبر پختونخوا اور پھر دیہی علاقوں میں ہر ایک علاقے کے الگ الگ مسائل اور الگ الگ ووٹ کا رجحان ہوتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ووٹ کے رجحان اور بیانیہ بنانے میں سوشل میڈیا اور میڈیا کا ایک بڑا کردار ہے۔

محسن داوڑ نے بتایا کہ ووٹ دینے کے رجحان میں بیانیہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور حالات کے مطابق امیدوار بھی یہ بیانیہ بنا دیتا ہے اور لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور پھر عوام اسی بنیاد پر امیدوار کا چناؤ کرتے ہے۔

’اسی طرح ووٹ کے رجحان میں امیداور کی قابلیت اور اس کی ماضی میں خدمات کو بھی دیکھا جاتا ہے جبکہ ساتھ میں امیداور کی قومیت اور قبیلے کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا تعلق کس قبیلے اور قوم سے ہے اور اسی بنیاد پر بھی میرا خیال ہے کہ ووٹ دیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا، ’یہ سارے رجحانات ضروری نہیں ہیں کہ ہر ایک علاقے میں ایک جیسے ہوں کیونکہ ہر ایک علاقے میں ووٹ ٹرینڈ الگ الگ ہوتا ہے اور اسی رجحان کو دیکھ کر امیدوار کو ووٹ دیا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست