حماس کے ساتھ سیز فائر معاہدے کے تحت اسرائیلی قید سے آٹھ سال بعد رہائی پانے والی فلسطینی خاتون اسرا جابس اپنے گھر پہنچ گئیں۔
ترک خبر رساں ایجنسی ٹی آر ٹی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں قائم وادی حلوہ انفارمیشن سینٹر نے اتوار کو ان کی واپسی کی تصدیق کی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 11 سال قید کی سزا پانے والی اسرا کی رہائی سے قبل اسرائیلی پولیس نے کئی پابندیاں لگائیں۔ ان کی رہائی کا جشن منانے پر پابندی عائد تھی اور رہائی کے ابتدائی لمحات کی کوریج روکنے کے لیے تمام صحافیوں کو ان کے گھر سے نکال دیا گیا۔
انہیں 10 اکتوبر، 2015 کو مقبوضہ بیت المقدس کے جنوب مشرق میں واقع جبل المکابر نامی قصبے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے گھر فرنیچر لے جا رہی تھیں اور الزیم چیک پوسٹ سے 500 میٹر کی دوری پر گاڑی ان کے قابو سے باہر ہو گئی۔
اسرا کی بہن مونا کے مطابق اسرائیلی فوجی کار روکنے کے لیے اسرا پر چیخے تو ان کی کار ساتھ والی گاڑی میں جا ٹکرائی اور اچانک آگ لگ گئی۔
مونا کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے چیک پوائنٹ پر اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ گاڑی کی کھڑکیاں بالکل ٹھیک تھیں۔
’گاڑی کے بیرونی حصے کا رنگ بھی تبدیل نہیں ہوا اور اگر کوئی دھماکہ ہوا ہوتا تو اس کے ساتھ اسرا کے بھی کئی ٹکڑے ہوچکے ہوتے۔‘
مونا نے کہا کہ گاڑی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تکنیکی خرابی تھی۔ ’جب ان کی گاڑی میں گیس سیلنڈر پھٹا اور گاڑی میں آگ لگی تو ان کے چہرے اور ہاتھوں سمیت جسم کا 60 فیصد حصہ جل گیا۔‘
تاہم اسرائیلی حکام نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ’دہشت گردانہ‘ حملہ کرنا چاہتی تھیں، جس کی وہ تردید کرتی ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق اسرا ایک نرسنگ ہوم میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے خیراتی اداروں اور سکولوں میں رضاکارانہ وقت گزارا اور مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے آگسٹا وکٹوریہ ہسپتال میں بچوں کی تفریح کے لیے لباس پہن کر جوکر بنتی تھیں۔
فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ادمیر کا کہنا ہے کہ خرابی کی وجہ سے اسرا کی گاڑی میں گیس سلنڈر پھٹ گیا۔
ادمیر کے مطابق: ’جب وہ اپنی جلتی ہوئی کار سے نکلیں تو ایک اسرائیلی فوجی ان کے پاس گیا اور چیخ کر ان پر بندوق تان لی اور انہیں موقعے پر ہی گرفتار کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادمیر کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے بعد اسرائیلی حکام نے گاڑی کا معائنہ نہیں کیا۔
اسرا نے تین ماہ حداسہ عین کریم ہسپتال میں گزارے۔
اس کے بعد انہیں رام اللہ جیل ہسپتال منتقل کیا گیا، جسے دیگر قیدی ’مذبح خانے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
2017 میں مقبوضہ بیت المقدس کی مرکزی عدالت نے انھیں اقدام قتل کے الزام میں 11 سال قید کی سزا سنائی۔
ادمیر کی رپورٹ کے مطابق: ’وہ روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دینے سے قاصر ہیں جیسا کہ کھانا، باتھ روم کا استعمال، حتیٰ کہ اپنے کپڑے تبدیل کرنا بھی۔
’اگرچہ جابس کی حالت کو بہت زیادہ طبی اور ذہنی دیکھ بھال کی ضرورت ہے، لیکن اسرائیلی حکام نے ان کی فوری ضروریات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔‘
جابس کو کم از کم آٹھ سرجریوں کی ضرورت ہے۔
الجزیرہ کے مطابق گذشتہ ہفتے جابس اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔ اپیل اگلے نوٹس تک ملتوی کردی گئی۔
جابس نے سماعت کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا تھا: ’کیا اس سے بڑا کوئی درد ہے؟ درد واضح ہے، اور مجھے علاج نہیں مل رہا۔‘
انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ’میری انگلیاں نہیں ہیں، میں دو سال سے یہاں ہوں۔ مجھے اپنے جیل میں ہونے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔‘
جابس کے وکیل لیح سیمل نے الجزیرہ کو بتایا: ’ان کی حالت اچھی نہیں، وہ شدید تکلیف اور پریشان ہیں۔ انہیں کچھ وٹامن مل رہے ہیں، لیکن کوئی مناسب علاج نہیں ہو رہا اور ان کی ظاہری شکل کو بہتر بنانے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘