پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر امریکہ میں ہیں جہاں انہوں نے بدھ کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل سی کیو براؤن سے الگ الگ ملاقاتوں میں دو طرفہ دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
امریکی وزارت دفاع سے جاری بیان کے مطابق لائیڈ آسٹن اور جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات میں ’علاقائی سلامتی سے متعلق حالیہ پیش رفت اور دوطرفہ دفاعی تعاون کے ممکنہ شعبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘
جبکہ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ملاقات میں دونوں عسکری رہنماؤں نے سلامتی کی موجودہ صورت حال اور دفاع کے شعبے میں جاری دو طرفہ تعاون پر بات چیت کی گئی۔
بطور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا امریکہ کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے جس میں ان کی امریکی فوج اور حکومت کے سینئیر رہنماؤں سے ملاقاتیں طے ہیں۔
ایک معروف امریکی جریدے فارن پالیسی میگزین کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ ایک ایسے وقت میں واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں جب پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات نسبتاً مستحکم اور بحران سے پاک ہیں، لیکن مستقبل غیر یقینی ہے۔
میگزین کے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے واشنگٹن اور اسلام آباد اپنی شراکت کے لیے نئے زوایے تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
تقریباً 13 ماہ قبل آرمی چیف کا منصب سنھبالنے کے بعد جنرل عاصم منیر کی اعلٰی امریکی کمانڈروں کے دورہ پاکستان کے دوران ملاقاتیں ہو چکی ہیں جبکہ ٹیلی فون پر وہ امریکی وزیر دفاع آسٹن سے تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ دورہ امریکہ کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ پڑوسی ملک افغانستان میں سرگرم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ملک کو لاحق سکیورٹی خطرات پر بھی امریکی حکام سے بات چیت کریں گے۔
رواں ہفتے ہی پاکستان کے شمالی مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں 23 پاکستانی فوجیوں کی جان سے گئے جس کی ذمہ داری ٹی ٹی پی سے جڑے ایک گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کرنے کا دعوی کیا تھا۔
پاکستانی حکومت کے عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اسلام آباد، کابل سے یہ مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو ’دہشت گردی‘ کے لیے استعمال نا ہونے دے اور افغانستان میں موجود ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔
پاکستان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ امریکہ افواج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی طرف سے حکومت پر کنٹرول کے دوران افغان فورسز کی پسپائی دوران جو اسلحہ چھوڑ دیا گیا وہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے جو کہ ایک اور بڑا چیلنج ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی طرف سے ملک میں مقیم 17 لاکھ غیر اندارج شدہ افغانوں کی واپسی کا فیصلہ بھی اس دورے میں زیر بحث آ سکتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں امریکہ کی اسٹنٹ وزیر خارجہ جولیٹا والس نوئیس نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے اہل افغان مہاجرین کی امریکہ منتقلی کے عزم کا اعادہ بھی کیا تھا۔
بیان کے مطابق جولیٹا نے پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتوں میں اہل افغان شہریوں کی امریکہ میں نقل مکانی یا دوبارہ آبادکاری کے لیے مل کر تیزی سے کام کرنے بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔