خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں پولیس کے مطابق جمعے کو صبح سویرے شدت پسندوں کے دو حملوں کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار جان سے چلے گئے جبکہ تین زخمی ہیں۔
ٹانک پولیس کے ضلعی پولیس سربراہ افتخار شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک حملہ پولیس لائن اور دوسرا ایک سکیورٹی فورسز کمپاؤنڈ پر ہوا اور مجموعی طور پر دونوں حملوں میں تین شدت پسند مارے گئے ہیں۔
افتخار شاہ نے مزید بتایا: ’پولیس لائن میں اب بھی دو شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ہے اور پولیس کی جانب سے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔‘
ایک نئی تنظیم ’انصار الجہاد‘ نے ٹانک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکتی۔
ٹانک میں پولیس لائن پر حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک میں خصوصاً خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کی لہر میں تیزی آئی ہے۔
رواں ہفتے ہی خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 23 فوجی جان سے چلے گئے تھے جبکہ مختلف کارروائیوں میں کل 27 ’دہشت گرد‘ مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کئی برسوں سے شدت پسندی سے متاثر ہیں جہاں شدت پسندانہ کارروائیاں دیگر اضلاع کی نسبت زیادہ ہو رہی ہیں۔
صوبائی محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال صوبے میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع شمالی وزیرستان جبکہ دوسر نمبر پر خیبر اور تیسرے پر جنوبی وزیرستان ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اعداد وشمار کے مطابق جنوبی وزیرستان میں رواں سال شدت پسندی کے 201 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سکیورٹی فورسز کی 36 جبکہ عام شہریوں کی 28 اموات ہوئی ہیں جبکہ شمالی وزیرستان میں 121 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا کے شدت پسندی سے متاثرہ اضلاع میں شامل ہے اور رواں سال شمالی و جنوبی وزیرستان اور ضلع خیبر کے بعد یہ صوبے کا چوتھا متاثرہ ترین ضلع ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال ڈیرہ اسماعیل خان میں شدت پسندی کے 98 واقعات پیش آئے، جن میں 21 سکیورٹی اہلکار جبکہ پانچ عام شہریوں کی اموات واقع ہوئیں جبکہ 60 سے زائد افراد ان واقعات میں زخمی ہوئے۔
جنوبی اضلاع میں شامل ٹانک اور لکی مروت بھی صوبے کے پہلے 10 متاثرہ اضلاع میں شامل ہیں۔ ان 10 اضلاع میں پشاور، خیبر اور باجوڑ بھی شامل ہیں۔
محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق لکی مروت میں رواں سال 55 جبکہ ٹانک میں 61 شدت پسندی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
لکی مروت میں 2010 میں ہونے والا سب سے بڑا حملہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ جب لکی مروت کے ایک والی بال گراؤنڈ میں دھماکہ ہوا تھا، جس میں 140 سے زائد افراد جان سے گئے تھے۔ جس بستی میں یہ واقعہ ہوا تھا، اسے اب ’بیواؤں کی بستی‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس گاؤں کے گھروں میں تقریباً تمام مرد جان سے چلے گئے تھے۔
جنوبی اضلاع نشانے پر کیوں ہیں؟
رسول داوڑ کا تعلق وزیرستان سے اور وہ گذشتہ 15 سالوں سے شدت پسندی پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مختلف کمانڈرز کے انٹرویو بھی کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’جنوبی اضلاع پر ہمیشہ سے شدت پسندوں کا فوکس رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ ان اضلاع کی افغانستان کے ساتھ منسلک سرحد ہے۔‘
داوڑ نے بتایا کہ ’شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کی افغانستان کے صوبہ خوست، پکتیا اور پکتیکا کے ساتھ متصل سرحد ہے اور سکیورٹی ذرائع یہی کہتے ہیں کہ باڑ تو لگ چکی ہے لیکن کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں شدت پسند کٹر کے ذریعے باڑ کاٹ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وزیرستان کے کچھ پہاڑی علاقے بہت سخت ہیں جہاں برف باری بھی ہوتی ہے اور ہر طرف جنگلات بھی ہیں، جس کی وجہ سے شدت پسندوں کی نقل و حرکت کم پکڑی جاتی ہے۔‘
رسول داوڑ کے مطابق: ’وہاں سے داخلے کے بعد یہ آسانی سے ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت اور بنوں جا سکتے ہیں کیونکہ یہ اضلاع ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ‘لکی مروت میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد واقعات میں کچھ کمی آئی ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر جنوبی اضلاع میں واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘
ان اضلاع کے محل و وقوع پر بات کی جائے تو جنوبی وزیرستان کی سرحد ضلع ٹانک سے ملتی ہے اور ٹانک کی سرحد سابق فرنٹیئر ریجن لکی مروت کے ساتھ ملتی ہے۔
اس طرح شمالی وزیرستان کی سرحد ضلع بنوں سے اور ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحد وزیرستان سے ملتی ہے۔
رسول داوڑ کے مطابق: ’یہ سارے اضلاع ایک دوسرے کے ساتھ ملحق ہیں تو تمام اضلاع میں واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘