امریکہ کی ریاست اوکلاہوما میں ایک 71 سالہ شخص کو ایک ایسے قتل کے جرم میں تقریباً 50 سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد بے گناہ قرار دے دیا گیا جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں تھا۔
دی نیشنل رجسٹری آف ایکزونریشنز کے مطابق گلین سیمنز نامی سیاہ فام شخص نے امریکی تاریخ میں کسی بھی دوسرے قیدی کے مقابلے میں بری ہونے سے پہلے سب سے زیادہ وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گلین سیمنز کو مجموعی طور پر 48 سال، ایک ماہ اور 18 دن جیل میں گزارنے کے بعد جولائی میں رہا کیا گیا تھا۔
امریکی ریاست اوکلاہوما میں خبروں کی ویب سائٹ کے فور کے مطابق کے فور کی صحافی علی میئر وہ واحد صحافی تھیں جنہوں نے گذشتہ 20 سال کے دوران دو بار گلین سمینز کا انٹرویو کیا تھا۔
انہوں نے پہلی بار 2003 اور دوسری بار 2014 میں گلین سیمنز کا انٹرویو کیا۔
لیکن اب وہ ایک آزاد سیمنز سے ملنے آئی تھیں۔
جیل سے رہائی ملنے کے بعد گلین سیمنز نے علی میئر سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے میرے ساتھ رابطہ رکھا اور میرے کیس پر یقین رکھا۔
’میرے پہلے انٹرویو کو 20 سال ہو چکے ہیں اور آپ نے انہیں بتا دیا تھا۔ آپ نے انہیں بتایا تھا کہ اس کیس میں کچھ غلط ہے اور آخرکار انہوں نے اسے دیکھ ہی لیا۔‘
اے ایف پی کے مطابق گلین سیمنز اور ایک اور شخص ڈان رابرٹس کو اوکلاہوما کے شہر ایڈمنڈ میں ڈکیتی کے دوران وائن شاپ کے کلرک کے قتل کے الزام میں 1975 میں موت کی سزا سنائی دی گئی تھی تاہم بعد میں ان کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔
گلین سیمنز اور رابرٹس کو محض ایک نوعمر لڑکی کی گواہی کی بنیاد پر سزا سنائی گئی تھی جنہیں ڈکیتی کے دوران سر میں گولی لگی تھی لیکن وہ بچ گئی تھیں۔
لڑکی نے ان کی پولیس لائن اپ سے باہر شناخت کی تھی لیکن بعد میں ہونے والی تفتیش سے ان کی شناخت مشکوک ثابت ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں ملزموں نے مقدمے کی سماعت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ قتل کے وقت وہ اوکلاہوما میں موجود ہی نہیں تھے۔
یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج ایمی پلمبو نے جولائی میں سمنز کی سزا کو کالعدم قرار دیا اور بالآخر منگل کو اوکلاہوما کاؤنٹی ڈسٹرکٹ کورٹ میں ہونے والی سماعت میں انہیں بے قصور قرار دے دیا گیا۔
گلین سیمنز نے رہائی کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ وہ دن ہے جس کا ہم ایک طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج آخرکار ہمیں انصاف مل گیا۔‘
دی نیشنل رجسٹری آف ایکزونریشنز کے مطابق رابرٹس اور سیمنز کے شریک مدعا علیہ کو 2008 میں جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
گلین سیمنز اب تلافی کے معاوضے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جو کچھ ہوا ہے اسے واپس پلٹا نہیں کیا جا سکتا لیکن احتساب ہو سکتا ہے۔ میں اب بھی یہی بات کر رہا ہوں کہ احتساب ہونا چاہیے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔