غزہ پر اسرائیلی جارحیت اپنے تیرہویں ہفتے میں داخل ہو چکی ہے جبکہ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں جان سے جانے والے فلسطینی شہریوں کی تعداد 21 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ میں ہفتے کو بھی لڑائی جاری رہی، جہاں بے گھر فلسطینیوں نے کا کہنا ہے کہ وہ ’تھک چکے‘ ہیں جبکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا ہے۔
غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس میں دھواں اٹھ رہا ہے، جو سات اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں لڑائی کا حالیہ مرکز ہے۔
مزید جنوب میں مصر کے قریب سرحدی شہر رفح غزہ کے باشندوں سے بھرا ہوا ہے جو اسرائیل کی مسلسل بمباری سے بچنا چاہتے ہیں۔
خان یونس سے نکل کر رفح میں پناہ لینے والی 49 سالہ ام لوئی ابو ختر نے کہا کہ’بہت ہو گئی یہ جنگ! ہم پوری طرح تھک چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سرد موسم میں ہم مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ دن رات ہم پر بم گرتے رہتے ہیں۔‘
بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیلی فوج اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور پورے غزہ میں ’شدید لڑائیوں‘ اور فضائی حملوں کی اطلاعات ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ہفتے کو کہا ہے کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ ’کئی ماہ‘ تک جاری رہے گی جب تک کہ اس فلسطینی گروپ کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔
انہوں نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس بات کی ضمانت دیں گے کہ غزہ اب اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں رہے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ فوج ایک ’پیچیدہ لڑائی‘ میں مصروف ہے اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وقت درکار ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے بقول اسرائیلی فوجی کارروائی میں کم از ک 21 ہزار 672 افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں 165 فلسطینی جان سے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کے اندر لڑائی میں اس کے 170 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے رات گئے رفح اور خان یونس پر مسلسل گولہ باری کی اطلاع دی اور وزارت صحت کا کہنا تھا کہ وسطی غزہ کے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں ایک گھر پر حملے میں ’متعدد‘ افراد مارے گئے ہیں۔
’تباہی کا سال‘
خان یونس کے نصر ہسپتال کے طبی عملے کا کہنا ہے کہ انہیں شدید قلت کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے شیئر کی گئی فوٹیج میں ڈاکٹر احمد ابو مصطفیٰ نے کہا کہ ’ ’ہسپتال میں گنجائش سے کہیں زیادہ (مریض) آ رہے ہیں، درحقیقت ہم اپنی استطاعت سے 300 فیصد زیادہ میں کام کر رہے ہیں۔
’بستر بھرے ہوئے ہیں اور ہمارے پاس بنیادی طور پر ہر قسم کی ادویات کی کمی ہے۔‘
وزارت صحت نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مریضوں کو نکالنے میں مدد سمیت امداد میں اضافہ کرے۔
وزارت نے کہا کہ لڑائی کی وجہ سے 23 اسپتال اور 53 صحت کے مراکز سروسز نہیں دے پا رہے جبکہ 104 ایمبولینسیں تباہ ہوگئی ہیں۔
وسطی غزہ کے علاقے زویدہ میں فلسطینیوں نے اسرائیلی حملے کے بعد ملبے تلے سے ایک بچے کی لاش نکالی۔
علاقے کے شہری دفاع کے ڈائریکٹر رامی العدی نے بتایا: ’ہم نے نو شہیدوں کو نکالا، جو ایک پرامن خاندان کے رکن تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حملے میں دو گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔
غزہ شہر سے بے گھر ہونے والے 33 سالہ فلسطینی احمد الباز نے کہا کہ یہ سال ’میری زندگی کا بدترین سال‘ تھا۔
ایک عارضی کیمپ میں خیموں سے گھرے رفح میں انہوں نے کہا کہ ’یہ تباہی کا سال تھا۔ ہم چاہتے ہیں جنگ ختم ہو اور نئے سال کا آغاز جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہو۔‘
ثالثی کی کوششیں
بین الاقوامی ثالث، جنہوں نے گذشتہ ماہ ایک ہفتے کی فائر بندی میں ثالثی کی تھی جس میں 100 سے زیادہ قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا اور کچھ امدادی سامان بھی غزہ میں داخل ہوا تھا، ایک بار پھر لڑائی میں ایک ہفتے کے وقفے کو یقینی بنانے کی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایکسیوس اور اسرائیلی ویب سائٹ وائی نیٹ نے اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ قطری ثالثوں نے اسرائیل کو بتایا ہے کہ حماس فائر بندی کے بدلے مزید قیدیوں رہائی پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
حماس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کا ایک وفد جمعے کو قاہرہ میں قابل تجدید فائر بندی، فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کی کی مرحلہ وار رہائی اور بالآخر جنگ کے خاتمے کے مصری منصوبے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے قاہرہ میں تھا۔
حماس کے شانہ بشانہ لڑنے والے ایک اور فلسطینی گروپ اسلامک جہاد نے ہفتے کو کہا تھا کہ فلسطینی دھڑے مصر کی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
گروپ کے چیف مذاکرات کار محمد الہندی نے کہا کہ اس کا جواب ’چند دنوں کے اندر‘ مل جائے گا۔
ہفتے کو ہونے والے مذاکرات کے بارے میں پوچھے جانے پر نیتن یاہو نے کہا کہ حماس ’ہر قسم کے الٹی میٹم دے رہی ہے جسے ہم قبول نہیں کرتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک خاص تبدیلی دیکھ رہے ہیں لیکن میں کوئی توقع پیدا نہیں کرنا چاہتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیتن یاہو کی تقریر کے دوران حماس کی قید میں موجود اسرائیلیوں کے سینکڑوں رشتہ داروں اور حامیوں نے تل ابیب میں مظاہرہ کیا تاکہ اپنے پیاروں کو وطن واپس لانے کے لیے اپنی حکومت پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے۔
گذشتہ ماہ سیزفائر کے دوران رہا ہونے والی سابق یرغمالی موران سٹیلا ینائی کا کہنا تھا کہ غزہ میں سب سے خوفناک چیز کو بھلا دیا جانا چاہیے۔
دریں اثنا حماس نے واشنگٹن کے اس اعلان پر تنقید کی کہ اس نے اسرائیل کو 14 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔
حماس کے بقول: ’ یہ اس مجرمانہ جنگ کے لیے امریکی انتظامیہ کی مکمل سرپرستی کا واضح ثبوت ہے۔‘
سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی جانب سے محاصرے کے نتیجے میں غزہ میں خوراک، صاف پانی، تیل اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی 24 لاکھ آبادی میں سے 85 فیصد سے زیادہ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ غزہ کی جنگ نے پورے خطے میں کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں نے الخلیل (ہیبرون) کے جنوب میں واقع فوار پناہ گزین کیمپ کے داخلی راستے پر ایک فلسطینی موٹر سائیکل سوار کو گولی مار دی۔ اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ اس موٹر سائکل سوار نے فوجیوں کو مارنے کی کوشش کی تھی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔