نیویارک میں سرمایہ دارانہ نظام کی علامت بیل کے مجسمے پر حملہ

یہ مجسمہ اطالوی آرٹسٹ نے 1970 کے بعد امریکی معیشت میں بہتری کے جشن کو منانے کے لیے ڈیزائن کیا تھا۔

2011 میں ’آکوپائے وال اسٹریٹ موومنٹ‘ کے ارکان نے اس مجسمے کو کارپوریٹ سیکٹر کی لالچ کی علامت کے طور پر استعمال کیا۔(سوشل میڈیا)

امریکہ کے معاشی دارالحکومت نیویارک کی وال سٹریٹ میں نصب شہر کی پہچان ’غصیلے بیل‘ کے مجسمے کو نقصان پہنچانے کے جرم میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

گرفتار شخص نے مبینہ طور پر اپنے ہاتھ میں موجود ساز (بینجو) سے مجسمے پر حملہ کیا جس سے اس کے سینگ میں سوراخ ہو گیا اور گہری دراڑ پڑ گئی۔

1989 میں اطالوی مجسمہ ساز آرٹورو ڈی موڈیکا کے کانسی سے تخلیق کیے گئے اس مجسمے کو نیویارک کی وال سٹریٹ میں نصب کیا گیا تھا۔ اسے امریکہ کی اقتصادی گلی بھی کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حملے کے بعد اس مشہور زمانہ مجسمے کے سینگ پر کئی دراڑیں دیکھی گئیں جبکہ یہ ایک جگہ سے کھل بھی گیا۔

موقعے پر لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں موجود گٹار نما ساز سے اس اکہتر سو پاؤنڈ وزنی مجسمے پر دن دہاڑے دیگر لوگوں کی موجودگی میں ضربیں لگا رہا ہے۔

ٹیکساس کے شہر ڈیلاس سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ ٹیون ورلیک نامی شخص کو اس واقعے کے بعد مجرمانہ فعل، اضطرابی برتاؤ اور ہتھیار رکھنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس واقعے کے مشتبہ کے پیچھے کیا محرکات تھے۔

یہ مجسمہ اطالوی آرٹسٹ نے 1970 کے بعد امریکی معیشت میں بہتری کے جشن کو منانے کے لیے ڈیزائن کیا تھا۔ جب آرٹورو ڈی موڈیکا نے 15 دسمبر 1989 کو بہت سے ٹکڑوں کو جوڑ کر اس مجسمے کو مکمل کیا تھا تو وہ اسے سڑک پر ایک کرسمس ٹری کے نیچے چھوڑ کر چلے گئے اور امریکہ کے لیے اسے اپنا تحفہ قرار دیا۔

لیکن اس کے بعد کچھ لوگوں نے اسے امریکی سرمایہ دارانہ نظام اور معاشی طاقت کے عملی اظہار کی علامت کے طور پر بھی دیکھا ہے۔ اسی طرح کے مجسمے شنگھائی اور ایمسٹرڈم سٹاک ایکسچینجز کے باہر بھی نصب کیے گئے ہیں۔

2011 میں ’آکوپائے وال اسٹریٹ موومنٹ‘ کے ارکان نے اس مجسمے کو کارپوریٹ سیکٹر کی لالچ کی علامت کے طور پر استعمال کیا۔

بعد میں اس مجسمے نے مزاحمتی فنکاروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی تھی۔ مثال کے طور پر 2017 میں پیرس کلائمنٹ معاہدے کی حمایت کے لیے اس مجسمے پر نیلا رنگ پھینک دیا گیا تھا۔

اسی طرح 2017 کے آغاز میں ہی اس مجسمے کے سامنے ایک چھوٹی بچی کا مجسمہ  جسے ’فیئرلیس گرل‘ یعنی بے خوف لڑکی کہا جاتا ہے، نصب کیا گیا تھا۔ آرٹسٹ کرسٹن ویسبل کے بنائے گئے مجسمے میں بچی بے خوف انداز سے بیل کو گھور رہی تھی جو خواتین کی مزاحمتی قیادت کی علامت سمجھا جا رہا تھا۔ اس وقت ڈی موڈیکا نے ’نڈر لڑکی‘ کے مجسمے کو ’اشتہاری چال‘ قرار دیا اور اگلے سال اس مجسمے کو بھی وہاں سے منتقل کردیا گیا۔

    

 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ