غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 100 دن مکمل ہونے پر ہفتے کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور برطانوی دارالحکومت لندن سمیت دنیا کے 30 ممالک میں ہزاروں افراد نے اسرائیلی حملوں کے خلاف مظاہرے کیے۔
ان مظاہرین نے اسرائیل کے لیے امریکہ اور برطانیہ کی حمایت کے خلاف ’گلوبل ڈے آف ایکشن‘ پر فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا۔
خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 23 ہزار 843 فلسطینیوں کی جانیں جا چکی ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 100 مکمل ہونے پر واشنگٹن میں نوجوانوں کی اکثریت والے مظاہرے کے شرکا نے فلسطینی جھنڈے لہرائے جبکہ بہت سے لوگوں نے روایتی فلسطینی سکارف کوفیہ پہنا ہوا تھا۔
مظاہرے میں شریک افراد نے ’فلسطین کو آزاد کرو‘ اور ’غزہ پر جارحیت ختم کرو‘ کے نعروں والے پوسٹر اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور ’ابھی سیزفائر کرو‘ کے نعرے لگائے۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 100 دن مکمل ہو نے پر جماعت اسلامی کا شاہراہ فیصل پر ملین مارچ
— Independent Urdu (@indyurdu) January 14, 2024
مزید تفصیلات: https://t.co/BbZaDq21Z7 pic.twitter.com/7WM91SOHEG
وائٹ ہاؤس سے چند بلاکس کے فاصلے پر ایک سٹیج پر متعدد فلسطینی نژاد امریکیوں نے غزہ میں جان سے جانے والے یا زخمی ہونے والے دوستوں اور رشتہ داروں کی جذباتی کہانیاں سنائیں۔
انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی فوجی اور مالی مدد بند کر دیں۔
ایک مقرر نے کہا کہ اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پر دباؤ ڈال کر ’صدربائیڈن اس پاگل پن کو باآسانی روک سکتے ہیں۔‘
سات اکتوبر کے بعد سے فلسطینیوں کی حمایت میں لندن میں یہ ساتواں مظاہرہ تھا۔
ہفتے کو تقریباً 1700 پولیس اہلکار لندن میں ہونے والے مظاہروں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیوٹی پر تعینات تھے۔
اپنے اہل خانہ کے ساتھ مارچ میں شریک 27 سالہ ہیلتھ سروس ورکر ملیحہ احمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم فلسطین کے عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور اپنی حکومت کے خلاف بول بھی رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ اسرائیل کو جارحیت جاری رکھنے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ ناقابل قبول ہے۔‘
برطانوی تنظیمی اتحاد کی جانب سے بلائے گئے دی ڈے آف ایکشن، کے دن 30 ممالک میں مظاہرے ہوئے۔
خبر رساں ادارے روئـٹرز کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی کے 100 دن کے دوران پیش آئے اہم واقعات کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
100 دن میں کیا کیا ہوا؟
سات اکتوبر 2023: فلسطینی گروپ حماس کے مسلح افراد نے غزہ سے جنوبی اسرائیل کے علاقے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 1200 افراد مارے گئے اور 240 اسرائیلیوں کو قیدی بنا کر غزہ لے جایا گیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے بیان دیا کہ اسرائیل حالت جنگ میں ہے اور اسرائیل اور مصر کے درمیان واقع گنجان آباد غزہ پر فضائی حملے اور اس کا مکمل محاصرہ بھی شروع ہو گیا۔
آٹھ اکتوبر: لبنان میں سرگرم حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف سرحد پار گولہ باری شروع کر دی۔
13 اکتوبر: اسرائیل نے غزہ کے رہائشیوں کو شہر سے نکل کر جنوب کی طرف جانے کا کہا۔ بعد ازا، اسرائیل پورے شمالی علاقے کو خالی کرنے پر زور دیتا رہا۔ غزہ کے لاکھوں شہری اپنے گھر چھوڑ کر جنوبی علاقے میں منتقل ہو گئے اور اسرائیلی افواج کی پیش قدمی کی وجہ سے خاندانوں کو کئی بار منتقل ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
19 اکتوبر: امریکی بحریہ کے ایک جنگی جہاز نے یمن سے بحیرہ احمر کے راستے اسرائیل کی جانب داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کو روکا۔
21 اکتوبر: کئی دنوں کی سفارتی کشمکش کے بعد امدادی ٹرکوں کو مصر سے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ یہ غزہ میں ضرورت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ تھا، جہاں خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن ختم ہو رہے تھے۔
مناسب رسد کے حصول کا مسئلہ آنے والے مہینوں تک برقرار رہا کیونکہ انسانی بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا۔
27 اکتوبر: بڑھتی ہوئی محدود دراندازی کے ایک ہفتے بعد، اسرائیل نے غزہ میں وسیع پیمانے پر زمینی حملہ شروع کیا، جس کا آغاز شمال میں حملے سے ہوا، اسرائیل نے اپنے تمام قیدیوں کو رہا کرانے اور حماس کو ختم کرنے کا عہد کیا۔
31 اکتوبر: غزہ کی لڑائی میں پندرہ اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گئے جو جنگ میں فوج کا ایک دن میں سب سے بڑا نقصان تھا۔
یکم نومبر: غزہ سے رفح کراسنگ کے ذریعے غیر ملکی پاسپورٹ اور دوہری شہریت رکھنے والوں اور فوری طبی امداد کے ضرورت مند تقریبا 7,000 افراد کا انخلا شروع ہوا۔
نو نومبر: اسرائیل نے کہا کہ شام کی سرزمین سے داغے گئے ایک ڈرون نے اس کے جنوبی شہر ایلات کو نشانہ بنایا۔
اگلے دن اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے ذمہ دار ملیشیا پر حملہ کیا ہے۔ بعد میں اسرائیل نے شام کو بڑھتی ہوئی جنگ میں نیا محاذ قرار دیا۔
15 نومبر: اسرائیلی فوجی کئی دنوں کے محاصرے کے بعد غزہ شہر میں سب سے بڑے ہسپتال الشفا میں داخل ہوئے جس کے دوران طبی عملے کا کہنا ہے کہ بجلی اور رسد کی کمی کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں سمیت دیگر مریض دم توڑ گئے۔
اسرائیل کے بقول اس ہسپتال کے نیچے حماس کے جنگجوؤں کا زیر زمین ہیڈ کوارٹر تھا، عملے نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔
مزید چند ہفتوں میں غزہ کے شمالی نصف حصے میں خدمات انجام دینے والے تمام ہسپتالوں نے کام کرنا بند کر دیا۔
21 نومبر: اسرائیل اور حماس کے درمیان سات اکتوبر کے بعد پہلے سیزفائر کا اعلان ہوا: غزہ میں موجود قیدیوں کے اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی اور تبادلے کی غرض سے چار دن سیزفائر کا معاہدہ ہوا۔
سیز فائر میں مجموعی طور پر ایک ہفتے کی توسیع کی گئی، جس دوران 105 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے تقریبا 240 فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملی۔
چاردسمبر کے قریب: سیزفائر مدت ختم ہونے کے چند دن بعد اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ کے مرکزی شہر خان یونس کے مضافات میں اپنا پہلا بڑا زمینی حملہ کیا۔
بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لڑائی کے اس اگلے مرحلے میں اسرائیلی جارحیت پوری پٹی میں پھیل گئی اور انسانی صورت حال بہت زیادہ خراب ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
12 دسمبر: اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ کی جانب سے بیان بازی میں واضح تبدیلی آئی جب بائیڈن نے کہا کہ غزہ پر اسرائیل کی ’اندھا دھند بمباری‘ اسے بین الاقوامی حمایت سے محروم کر رہی ہے۔
آنے والے ہفتوں میں کئی سینیئر امریکی عہدے داروں نے اسرائیل کا دورہ کیا اور اس پر زور دیا کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرے۔
15 دسمبر: اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں غزہ میں تین قیدی مارے گئے۔ اس واقعہ سے اسرائیل کے اندر سے اسرائیلی جارحیت پر تنقید ہوئی۔
22 دسمبر: عراق میں اسلامی مزاحمتی تنظیم نے کہا کہ اس نے اسرائیل پر حملہ کیا۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے بعد میں کہا کہ عراق ان علاقائی محاذوں میں شامل ہے جن میں غزہ کی لڑائی پھیل چکی ہے۔
26 دسمبر کے آس پاس: اسرائیلی افواج نے وسطی غزہ کی پٹی پر ایک بڑا زمینی حملہ شروع کیا، جس سے پہلے فضائی حملے ہوئے جس سے ایک بار پھر لاکھوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
یکم جنوری، 2024 سے: اسرائیل نے اشارہ دیا کہ وہ اپنی مہم کے ایک نئے مرحلے میں غزہ سے کچھ فوجیوں کو واپس بلائے گا۔
اس کا کہنا تھا کہ یہ مہم کئی مہینوں تک جاری رہے گی۔ حکام نے کہا کہ حکمت عملی میں یہ تبدیلی غزہ کے شمال میں شروع ہو گی جبکہ جنوبی علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔
11 جنوری: بحیرہ احمر کی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کے بعد امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں نے یمن بھر میں درجنوں فضائی حملے کیے۔
امریکہ نے اگلے دن یمن میں ایک اور حملہ کیا۔ حوثیوں کا کہنا ہے کہ ابتدائی حملوں میں ان کے پانچ جنگجو مارے گئے ہیں اور وہ جوابی کارروائی کریں گے اور جہازوں پر اپنے حملے جاری رکھیں گے۔
اس کے علاوہ 11 جنوری کو ہی عالمی عدالت انصاف نے ایک ایسے مقدمے میں ابتدائی سماعت کی جس میں جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر فلسطینی آبادی کے خلاف ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کا الزام عائد کیا ہے۔ اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔