’بالائی منزل میں میری دکان ہے جہاں موبائل ایکسیسریز موجود ہے۔ آتشزدگی سے سب کچھ راکھ ہو گیا اور صرف دکان کی چابی رہ گئی ہے۔‘
یہ کہنا ہے پشاور صدر بازار کے ٹائم سینٹر نامی پلازے میں دکان کے مالک خان شیر کا، جن کی دکان کو پلازے میں لگنے والی آگ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
ٹائم سینٹر نامی یہ پلازہ پشاور کے صدر بازار میں مشہور موبائل مارکیٹ بلور پلازہ کے بالکل سامنے واقع ہے۔ جہاں ریسکیو حکام کے مطابق اتوار کی شب لگنے والی آگ پر پیر کو تقریباً 14 گھنٹے بعد قابو پا لیا گیا ہے۔
اس حوالے سے پلازے میں ایک دکان کے مالک خان شیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رات کو ایک بجے آتشزدگی کی اطلاع ملی اور ہم پہنچ گئے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔‘
خان شیر نے بتایا کہ یہ موبائل سامان کی ہول سیل مارکیٹ ہے جہاں پورے صوبے کو موبائل سامان سپلائی کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کروڑوں کا سامان دکان میں پڑا تھا جبکہ بعض دکانوں میں نقدی بھی پڑی تھی جو جل کر راکھ بن گئی ہیں۔‘
خان شیر کے مطابق اس پلازے میں موبائل سامان کی 250 کے قریب چھوٹی بڑی دکانیں ہیں جن میں موبائل بٹیریاں، پاور کیبل، ہینڈز فری، پروٹیکٹر، موبائل سپیکرز اور دیگر سامان فروخت کیا جاتا ہے۔
آگ بجھانے کا 14 گھنٹے پر محیط آپریشن
ریسکیو 1122 کے ٹیموں نے 14 گھنٹے کی کوششوں کے بعد آگ پر قابو لیا ہے اور اس عمل میں ریسکیو حکام کے مطابق 130 سے زائد فائر فائٹرز نے حصہ لیا جبکہ 30 سے زائد فائر بریگیڈ گاڑیوں کا استعمال کیا گیا۔
ترجمان ریسکیو 1122 بلال احمد فیضی نے آگ پر قابو پانے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ایک عمل تھا کیونکہ پلازے کا ایک ہی مرکزی دروازہ تھا اور اندر جانے میں مشکلات تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پلازے میں دکانوں کے اندر موبائل بیٹریاں، پاور بینک اور دکانوں میں لگی یو پی ایس کی بیٹریاں پڑی تھیں جس کی وجہ سے آگ ایک جگہ قابو ہونے کے بعد دوسری جگہ بھڑک اٹھتی تھی اور بیٹریوں کے پھٹنے سے چھوٹے دھماکے بھی ہوتے تھے۔‘
بلال فیضی نے بتایا کہ آگ پر قابو پانے کے بعد عمارت میں کولنگ یعنی عمارت کو ٹھنڈا کرنے کا عمل بھی جاری رہا اور عمارت سے دھواں نکالنے کے لیے سموک ایجیکٹرز کو استعمال کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کتنا نقصان ہوا ہے؟
یہ پلازہ ایک کمرشل پلازہ تھا جہاں پر موبائل سامان کا ہول سیل کاروبار کیا جاتا تھا اور یہیں سے پورے صوبے کو سامان سپلائی کیا جا تھا۔
پلازے میں دکان کے مالک نواب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابھی تک نقصان کا تخمینہ تو نہیں لگایا گیا ہے لیکن نقصان کروڑوں کا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس پلازے میں موبائل سامان کے گودام بھی موجود تھے جہاں پر ایک دکاندار کا لاکھوں روپے کا سامان پڑا تھا جو جل کر خاکستر ہوگیا ہے۔‘
’پلازے میں ایمرجنسی انخلا کا دروازہ نہیں تھا‘
پلازے میں لگی آگ کو بجھانے کے عمل میں حصہ لینے والے ریسکیو اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پلازے میں ایمرجنسی انخلا کے لیے کوئی دروازہ نہیں تھا اور اسی وجہ سے ریسکیو ٹیموں کو ابتدا میں اندر جانے میں مشکلات درپیش تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم رات سے آگ بجھانے کے عمل میں مصروف تھے لیکن دھند اور تاریکی کی وجہ سے کوشش کے باوجود اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔‘
اہلکار نے بتایا کہ ’صبح روشنی میں ہم نے پلازے کی کچھ دیواریں اور دروزے سائڈ سے توڑ دیے اور ہم اندر داخل ہوگئے کیونکہ مرکزی دروازے سے پیچھے تک پورا پلازہ آگ کی لپیٹ میں تھا اور تب ہی ہمیں آگ بجھانے میں کامیابی ملی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔