جنوبی افغانستان میں انگریزی پڑھانے والی ایک امدادی کارکن سڈنی میزل 2008 میں لاپتہ ہو گئی تھیں۔ انہیں سڑک کنارے سے اغوا کیا گیا تھا اور 15 سال تک مردہ تصور کیا گیا۔
ان کی گمشدگی کے حالات کے بارے میں کچھ تفصیلات کے حوالے سے ان کے اہل خانہ سوچتے تھے کہ کیا وہ کبھی یہ جان پائیں گے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
ان کی چھوٹی بہن جان میزل نے کہا کہ وہ لوگوں سے کہتی تھیں: ’وہاں کوئی ہے جو جانتا ہے کہ میری بہن کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ صرف بات نہیں کر رہے۔‘
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار ایڈم گولڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک سال قبل سیئٹل کے جنوب میں رہنے والی 64 سالہ جان میزل کو ایف بی آئی سے خبر ملی کہ ایجنٹوں نے افغانستان میں سڈنی میزل کی ہڈیوں کے چھوٹے ٹکڑے جمع کیے ہیں اور وہ ان کی باقیات کو واپس لانے کی کوشش کریں گے۔
سڈنی میزل کی باقیات ملنے سے ایک ایسا کیس ختم ہو گیا، جو طویل عرصے سے تفتیش کاروں کو پریشان کر رہا تھا اور یہ افغانستان میں ایف بی آئی کے سب سے پرانے اغوا کے واقعات میں سے ایک بن گیا تھا۔
یہ یرغمالیوں کا سراغ لگانے کی پیچیدگیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں اب امریکہ موجود نہیں ہے اور بیرون ملک گمشدہ افراد کی لاشوں کو تلاش کرنے میں دشواری کی نشاندہی کرتا ہے۔
ایف بی آئی نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ سڈنی میزل کی باقیات کو ’بازیاب کرکے ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘ اس کوشش میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں ایف بی آئی ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس کمیونٹی کے حکام بھی شامل تھے، جو یرغمالیوں کے معاملات دیکھنے والے یرغمالی ریکوری فیوژن سیل کا حصہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابھی تک سڈنی میزل کے اغوا اور قتل کے جرم میں کسی پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی، تاہم اس معاملے سے واقف ایک سابق امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس اغوا کے پیچھے ممکنہ طور پر طالبان تھے اور انہیں امید تھی کہ وہ کیوبا کے شہر گوانتاناموبے میں واقع امریکی فوجی جیل میں قید اپنے ایک رکن کے بدلے میں انہیں بازیاب کریں گے۔
2008 کے ایک بیان کے مطابق افغانستان میں سڈنی میزل نے ایشین رورل لائف ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن کے لیے کام کیا، قندھار یونیورسٹی میں انگریزی پڑھانے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے ایک سکول میں کڑھائی اور سلائی بھی سکھائی۔ وہ موسیقی سے محبت کرتی تھیں، جس میں گانا اور پیانو اور گٹار بجانا شامل تھا۔
جان میزل نے کہا کہ ان کے والد کو جنوری 2008 کے آخر میں اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں پتہ چلا۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دکاندار نے اغوا کا واقعہ دیکھا تھا اور بتایا کہ کس طرح سڈنی اور ان کے ڈرائیور کو بندوق برداروں کے ایک گروپ نے زبردستی سڑک سے اٹھا کر یرغمال بنا لیا تھا۔
اغوا کاروں نے سڈنی میزل کے موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے کئی دنوں تک امدادی ایجنسی کو بار بار فون کیا۔ جان میزل نے کہا کہ ان فون کالوں کے کچھ ہی دیر بعد اغوا کاروں نے اشارہ کیا کہ سڈنی کو مار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کچھ زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔
سڈنی میزل کے والد اپنی بیٹی کے اغوا کے چند ماہ بعد فوت ہوگئے تھے۔
سالوں تک جان میزل وقفے وقفے سے ایف بی آئی سے اس کیس کے بارے میں سنتی رہتی تھیں۔ انہیں اوباما انتظامیہ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں یرغمالیوں کی بازیابی کی کوششوں میں کی جانے والی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا کیونکہ اہل خانہ نے انتظامیہ کی جانب سے بے ترتیب مواصلات اور متضاد معلومات کی شکایت کی تھی۔
صدر بائیڈن کے دور میں انتظامیہ نے انہیں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کے ساتھ دو ویڈیو کانفرنس کالز میں مدعو کیا تھا۔ جان میزل نے کہا کہ یہ مطالبہ دہشت گردی کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے یہ سوال پوچھنے کے لیے تھا کہ حکومت اس قسم کی تحقیقات سے کس طرح نمٹتی ہے۔
جان میزل نے کہا کہ ایف بی آئی کو مختلف ثبوت موصول ہوئے تاہم کچھ زیادہ سامنے نہیں آیا۔ باقیات کے ممکنہ ٹھکانے کے بارے میں معلومات ملنے کے بعد ایف بی آئی نے کوششیں تیز کر دیں۔ 2021 میں حکومت نے سڈنی میزل کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کے لیے 50 لاکھ ڈالر تک انعام کا اعلان کیا تھا۔ اس نوٹس کو کئی زبانوں میں شائع کیا گیا تھا۔
جان میزل کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ انعام ایک بڑی پیش رفت کا باعث بنا، جب کوئی ہڈیوں کے ٹکڑوں کے ساتھ سامنے آیا۔ ایف بی آئی ایجنٹس کی جانب سے سڈنی میزل اور ان کے والد کے لیے گئے ڈی این اے نے اس بات کی تصدیق کردی کہ یہ سڈنی ہی کی تھیں۔
اس کے بعد حکومت نے ان کی باقیات کا پتہ لگانے اور انہیں واپس لانے کے لیے اقدامات کیے، جن میں انہیں کسی تیسرے ملک کے ذریعے لانا بھی شامل تھا۔ جان میزل نے کہا کہ اپریل 2023 میں ایف بی آئی کے دو ایجنٹوں نے امریکی پرچم میں لپٹی ہوئی باقیات کو واپس امریکہ پہنچایا تھا۔
ایف بی آئی کی جانب سے دی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی ایک کاپی سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی بہن کو سر میں گولی ماری گئی تھی اور ان کی کھوپڑی کچل دی گئی تھی۔ ایجنٹوں نے سڈنی کے افغانستان میں قیام کے دوران رکھے گئے ذاتی رسالے بھی واپس کر دیے۔
جان میزل کے مطابق: ’ان ایجنٹوں کی کوششوں کے بغیر ہم اب بھی کسی بڑے بلیک ہول میں ہوتے۔‘
ان کے اہل خانہ کو آخر کار سرکاری موت کا سرٹیفکیٹ ملنے کی امید ہے۔ سڈنی اگر زندہ ہوتیں تو اگلے ماہ 66 سال کی ہو جاتیں۔
تاہم اغوا کے دیگر مقدمات اب بھی ایف بی آئی کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں تفتیش کار اب بھی پال ایڈون اووربی جونیئر کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، جن کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ انہیں آخری بار مئی 2014 میں خوست شہر میں ایک کتاب پر تحقیق کے دوران دیکھا گیا تھا۔
جب وہ لاپتہ ہوئے تو انہیں ایک عسکریت پسند نیٹ ورک کے رہنما کا انٹرویو کرنے کی امید تھی۔ اسی طرح مغربی نیو یارک سے تعلق رکھنے والے ریان کاربیٹ کو طالبان نے 2022 میں اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ کاروباری دورے پر شمالی افغانستان گئے تھے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔