ووٹر اب صنفی امتیاز نہیں دیکھتے: ڈسکہ سے خاتون امیدوار

ڈسکہ سے قومی اسمبلی کی ن لیگی امیدوار نوشین افتخار کا کہنا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں الیکشن لڑنا ایک چیلنج ہے۔

پنجاب کے ضلع سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 73 میں ہونے والا انتخابی دنگل اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں ایک خاتون امیدوار مرد حریفوں کے خلاف میدان میں موجود ہیں۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی خواتین کو صرف مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دینے کی روایت کے برعکس پاکستان مسلم لیگ ن نے این اے 73 سے سابق رکن قومی اسمبلی سیدہ نوشین افتخار کو ایک مرتبہ پھر مقابلے میں اتارا ہے۔

سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سے تعلق رکھنے والی  نوشین اپنے والد سید افتخار الحسن شاہ المعروف ظاہرے شاہ کی وفات کے بعد 2021 میں ضمنی انتخابات میں اسی نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔

آٹھ فروری کو پولنگ ڈے قریب آنے کے ساتھ ہی این اے 73 میں انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہے اور ایسے میں نوشین حلقے اور مہم پر توجہ دینے کے علاوہ گھر کو بھی بخوبی چلا رہی ہیں۔ 

تاہم ان کا کہنا تھا بیک وقت دونوں ذمہ داریوں کو نبھانا چیلنجنگ ہے۔ ’انتخابات کے دن ہیں اور ایسے میں ہم بالکل بھی آرام نہیں کر پاتے۔ ہمارا شیڈول اس طرح کا ہوتا ہے کہ 14 سے 15 گھنٹے کام کرتے ہیں۔

’ایک خاتون کی حیثیت سے جنرل سیٹ پر انتخابات لڑنا اور یوں سیاسی میدان میں رہنا مخصوص نشست کے مقابلے سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور بہت زیادہ چیلنجنگ بھی۔‘

ان کا کہنا تھا آٹھ سے نو لاکھ کی آبادی ہے، جس کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں ان کے مسائل الگ الگ قسم کے ہوتے ہیں۔ ’پھر آپ کو معلوم ہے کہ ماضی میں ہماری پارٹی (پی ایم ایل این) میں مردوں کا غلبہ رہا ہے۔‘

نوشین کا کہنا تھا کہ جب سے مریم نوازجماعت کی چیف آرگنائزر بنی ہیں ناصرف پارٹی میں بلکہ عوام کی سوچ میں بھی بہت زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں۔

’کافی لوگوں کی قدامت پسند سوچ تبدیل ہوئی ہے۔ اب صنفی امتیاز پر لوگ ووٹ نہیں دیتے، لوگ ایک خاتون کو اس کی کارکردگی اور اس کی اپنے حلقے میں موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دینا چاہتے ہیں۔‘

ماضی میں ڈسکہ سے قومی اسمبلی کا حلقے این اے 75 فروری 2024 کے انتخابات کے لیے این اے 73 بن گیا ہے۔ 

انہوں نے کہا: ’ڈسکہ کے عوام نے ان کے ساتھ 2021 میں ضمنی انتخابات کے دوران بہت تعاون کیا اور ڈھائی سال میرا ان کے ساتھ ایک اچھا وقت گزرا ہے، جہاں ہم نے لوگوں کے مسائل پی ایم ایل این کے پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوششیں کیں۔ 

’اب بھی میری یہی کوششیں ہیں۔ میرے دھڑے ماشااللہ مضبوط ہیں اور آج بھی ہمارا نمبر بڑھ رہا ہے۔‘

انتخابات میں حصہ لینے کو ایک مشکل کام قرار دیتے ہوئے نوشین افتخار کا کہنا تھا: ’میں ڈسکہ سے دوسری خاتون ہوں جو جنرل سیٹ پر انتخاب لڑ رہی ہوں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان عام انتخابات لڑ چکی ہیں۔ 

’لیکن میرے لیے تھوڑی پابندیاں تھیں کیونکہ میں ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں اور سیاست میں میرا کوئی عملی کردار اور تجربہ بھی نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ عوام، علما کرام، مشائخ اور دوسرے طبقات نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ 

نوشین نے بتایا کہ چونکہ ان کے دادا صاحب زادہ سید فیض الحسن خطیب الاسلام رہے ہیں اور ان کا بھی ایک بہت بڑا نام تھا جس کی وجہ سے لوگوں کی طرف سے عزت اور پیار مجھے بھی مل رہا ہے۔‘

سیاست میں کیسے آئیں؟

سیاست میں قدم رکھنے سے متعلق سوال پر انھوں نے بتایا کہ کرونا وبا کے دوران ان کے والد کی طبیعت بہت خراب ہوئی اور انہوں نے مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کو اپنی بیٹی کے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے رضامند کیا۔

نوشین نے بتایا کہ ان کی والدہ نے بھی اس وقت انہیں سمجھایا کہ ’50 سال سے عوام کے ساتھ ہمارے روابط ہیں اور سیاسی خدمت انجام دے رہے ہیں تو گھر سے کسی ایک کو تو قدم اٹھانا تھا۔ والدہ اور والد کی خواہش کے مطابق میں نے سیاست کا آغاز کیا اوراللہ نے مجھے کامیاب بھی کیا۔‘

نوشین کے خیال میں ’عورت کی اپنی ایک طاقت یہی ہے کہ وہ اپنی ہمت کو قائم رکھے۔ زندگی میں مشکل حالات، اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور کبھی اس طرح کے حالات بھی آجاتے ہیں کہ آپ کہتے ہو کہ بس کافی ہوگیا۔

’میں خوش قسمت تھی کہ ایسے حالات میں میری والدہ نے میرا بہت ساتھ دیا۔

’میری والدہ بہت بہادر خاتون ہیں۔ وہ اپنے میاں کے سیاسی سفرمیں ہمیشہ ان کی سپورٹ کرتی تھیں۔ گھر کے سارے معاملات وہ دیکھتی تھیں۔

’انہوں نے دراصل میری ہمت بندھائی اور حوصلہ افزائی کی اور میں ان سے بہت متاثر بھی ہوئی۔ وہ ہمیشہ مستقل مزاجی کا درس دیتی ہیں۔‘

بیک وقت ماں اور سیاستدان

نوشین افتخار کہتی ہیں کہ سیاست کے ساتھ گھر کی دیکھ بھال میں مشکل پیش آتی ہے، لیکن وہ ٹائم کو اچھے طریقے سے مینج کرتی ہیں۔

’مجھے کافی مشکل ہوتی ہے گھر مینیج کرنے میں کیونکہ ہفتے کے پانچ دن بچے سکول جاتے ہیں تو ان کا کھانا پینا ان کے والد دیکھتے ہیں۔

’جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو میں  بچوں کو وقت  دیتی ہوں لیکن ہمارا معمول اس طرح کا ہے کہ اتوار عموماً مصروف ترین ہوتا ہے، اس لیے ہفتہ عموماً پورا میرا بچوں کے نام ہوتا ہے۔ ان کا کھانا، پینا، خریداری، باہر جاتا وغیرہ۔ اس دن وہ میری ترجیح ہوتے ہیں۔‘

روزانہ کا معمول

دو بچوں کی ماں نوشین کے ڈسکہ میں گھر کے سامنے ان کا ڈیرہ ہے، جہاں آج کل علی الصبح لوگوں کا تانتا بندھ جاتا ہے، جو خصوصاً اتوار کو بہت زیادہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوشین روزانہ صبح نو بجے ڈیرے پہنچ جاتی ہیں، جہاں وہ 12 بجے تک عوام سے بغیر کسی روک ٹوک ملتی، ان کے مسائل سنتی اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

ان کے ڈیرے پر آنے والوں کے آرام اور ناشتے پانی کا انتظام بھی اچھے طریقے سے کیا جاتا ہے۔

’آج کل یہ ہمارا مستقل یہ معمول ہمارا ہے کیونکہ لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔ لوگ یہاں جلسوں اور انتخابی مہم کے لیے وقت لینے آتے ہیں۔

’12 بجے ہم فیلڈ میں جاتے ہیں۔ اور رات کے 12 بجے گھر واپس آتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارا حلقہ بہت بڑا ہے، جس میں 30 سے زیادہ یونین کونسلز اور اتنی ہی وارڈز ہیں۔

’تو ہم دن کا وقت دیہی علاقوں میں گزارتے ہیں اور شام پانچ بجے کے بعد ہم شہرواپس آجاتے ہیں۔‘

کامیابی کے امکانات

نوشین کے مطابق ان کے لیے ڈسکہ سے انتخاب جیتنا کوئی مشکل نہیں ۔

’1985 سے میرے والد انتخابات لڑ رہے ہیں اور اللہ کا بڑا کرم ہے کہ ہر مرتبہ انہیں کامیابی ہوئی۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’میرے والد تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی اور پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ میرے شوہر صاحب زادہ سید مرتضیٰ امین بھی رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے امیدوار کا مقابلہ عموماً پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی سے ہی رہتا ہے لیکن ڈسکہ کی عوام نواز شریف اور میرے والد سے محبت کرتی ہے۔ 

’مجھے انتخابات لڑنا کبھی اتنا مشکل نہیں محسوس ہوا کیونکہ جب پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی ڈسکہ کے عوام نے ہمیں انتخاب جتوایا تو اس مرتبہ بھی پنجاب میں اور ڈسکہ میں کلین سویپ کریں گے۔‘

نوشین افتخار نے اپنی ٹیم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: ’میری ٹیم وہی لوگ شامل ہیں جو والد صاحب کے ساتھ ہوتے تھے، جن میں ہمارے پرانے ڈرائیور عارف ہیں جو 1985 سے میرے ابو کے ساتھ ہر الیکشن میں ہوتے تھے اور آج بھی میرے ساتھ ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی نئی ٹیم میں نوجوان بھی شامل ہیں۔ ’یہ وہ نوجوان ہیں جو بہت زیادہ ذہین اور متحرک لوگ ہیں اور میں بہت خوش ہوں کہ وہ سب لوگ اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کر رہے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین