سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہفتے کو پریس ایسوسی آف سپریم کورٹ (پاس) اور ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ایک اعلامیے کا نوٹس لیا ہے جس میں دونوں تنظیموں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے درجنوں صحافیوں کو نوٹسز بھجوانے پر اظہار تشویش کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف ’توہین آمیز اور غلط معلومات کی تشہیر‘ کرنے پر 65 افراد کو نوٹسز بھیجے ہیں، جن میں شامل 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو 30 اور 31 جنوری کو طلب کیا گیا ہے۔
پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ نے ایک اعلامیے میں بتایا کہ دونوں تنظیموں نے آج ایک مشترکہ اجلاس میں نوٹسز کے معاملے کا جائزہ لیا۔
اعلامیے کے مطابق آزاد عدلیہ کی طرح آزاد صحافت بھی جمہوریت کے فروغ کے لیے لازم ہے۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ دونوں تنظیمیں نوٹسز کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہیں کہ صحافیوں کو ایسے اقدامات کے ذریعے ہراساں نہ کیا جائے اور نوٹسز واپس لیے جائیں بصورت دیگر تمام صحافتی تنظیمیں مل کر اگلا لائحہ عمل طے کریں گی۔
صحافی عمران وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج ’چیف جسٹس نے پاس اور ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر کو چیمبر میں بلایا۔ ان سے ملاقات کے دوران صحافی میاں عقیل افضل اور فیاض محمود بھی موجود تھے۔‘
عمران کے مطابق: ’چیف جسٹس نے کہا صحافیوں سے متعلق کیس پیر کو مقرر کر رہا ہوں، آپ کی جو گزارشات ہیں عدالت میں بتائیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود 16 نوٹسز کے مطابق جن صحافیوں کو ایف آئی اے نے نوٹس جاری کیے ہیں ان میں مطیع اللہ جان، سرل المیڈا، اقرار الحسن، شاہین صہبائی، ثمر عباس، عدیل راجہ، صابر شاکر، ثاقب بشیر، عمران ریاض اور فہیم ملک شامل ہیں۔
اسی طرح یوٹیوبرز میں اسد طور، صدیق جان، ملیحہ ہاشمی کو طلب کیا ہے جبکہ وکیل جبران ناصر کو بھی ایف آئی اے نے بلایا ہے۔
ایف آئی اے کے اعلامیے کے مطابق ادارے نے 115 انکوائریاں باضابطہ طور پر رجسٹر کیں اور ’غلط معلومات‘ پھیلانے والے 65 افراد کو نوٹسز بھیجے گئے۔
اعلامیے کے مطابق یہ ’تحقیقات اور مذکورہ کارروائی معاملے کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہی ہے۔
’جن افراد کو نوٹس بھیجے گئے ان میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی 47 مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کی پاداش میں ان 47 اہم افراد پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔
’ایف آئی اے کے اقدامات ادارے کی ملکی قوانین کی پاسداری کے عزم کا مظہر ہیں۔‘
چیف جسٹس پاکستان اور ریاستی اداروں کیخلاف سوشل میڈیا کیمپین؛ جے آئی ٹی کی کاروائی۔۔
— Gharidah Farooqi (@GFarooqi) January 27, 2024
اب تک 115 انکوائریاں اور 65 نوٹسز دیے جا چکے ہیں FIA کیطرف سے؛ اُن افراد کو جو سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان اور ریاستی اداروں کیخلاف جھوٹے، بےبنیاد، لغو اور ہتک آمیز کیمپین میں ملوث پائے گئی۔… pic.twitter.com/GU2YMMLsK8
’ایف آئی اے کو صحافیوں کے کردار کشی کی پرواہ کیوں نہیں؟‘
صحافی حامد میر نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’گالی اور تنقید میں فرق ہے۔ اگر کوئی عدالتی فیصلے پر تنقید کرے تو یہ آئینی حق ہے لیکن اگر ایف آئی اے صرف تنقید پر نوٹس دے تو یہ غیر آئینی ہے۔
’ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر صحافیوں کی کردار کشی کی پرواہ کیوں نہیں؟‘
حامد میر نے کہا: ’جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو میں نے سائبر کرائمز ونگ کو فیاض الحسن چوہان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف درجن سے زائد درخواستیں دائر کیں لیکن ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا۔
’وہ صرف موجودہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔‘
نگران حکومت کے تحت جے آئی ٹی کی تشکیل
نگران حکومت نے 16 جنوری کو سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف ’بد نیتی پر مبنی سوشل میڈیا مہم کے حقائق کا پتہ لگانے‘ کے لیے چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کمیٹی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 (تفتیش کے اختیار سے متعلق) کے تحت تشکیل دی گئی۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں قائم کی گئی چھ رکنی کمیٹی میں انٹر سروسز انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے نمائندے اور کوئی ایک شریک رکن شامل ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق جے آئی ٹی 15 روز میں وزارت داخلہ کو ابتدائی رپورٹ پیش کرے گی اور اس سلسلے میں ایف آئی اے تحقیقات کے دوران مدد فراہم کرے گا۔
13 جنوری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ’بلے‘ کو منسوخ کرنے اور انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انتخابات کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو قانونی و سیاسی ماہرین نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
’یہ جارحانہ تقریر تو ہو سکتی ہے لیکن مجرمانہ نہیں‘
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ڈیجٹیل رائٹس فاونڈیشن‘ کی ایگزيکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’یہ بظاہر حد سے زیادہ اور بلاامتیاز قانونی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ لسٹ میں شامل افراد نے سپریم کورٹ کے ججز اور عدالت کے فیصلوں پر سخت تنقید کی ہے جو کہ محفوظ تقریر (protected speech) ہے۔ یہ جارحانہ تقریر تو ہو سکتی ہے لیکن مجرمانہ نہیں۔‘
نگہت نے کہا سوشل میڈیا کی چند پوسٹس اور وی لاگز میں ’بغیر ثبوت کے من گھڑت ہتک آمیز بیانیہ پایا گیا ہے جو ممکنہ طور پر توہین عدالت اور رکاوٹ کے زمرے میں آ سکتا ہے۔‘
’تاہم متعدد صحافیوں، بلاگرز اور سیاسی کارکنوں کو ان کے مبینہ غلط کام کی قانونی بنیاد بتائے بغیر مبہم نوٹس جاری کرنا نہ صرف ان کے خلاف سزا کے لیے استعمال ہوگا بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر خوف پیدا ہوگا اور آزادی اظہار پر بھی قدغن لگے گی۔‘