’بلے‘ کا نشان نہ ملنے کے باوجود پی ٹی آئی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ 

پی ٹی آئی سے ’بلا‘ بطور انتخابی نشان چھن جانے کو دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما سابق حکمران جماعت کی غلطیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا فروری کے عام انتخابات پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔

چھ جولائی 2018 کو لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کی خواتین حامی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کا جشن مناتے ہوئے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلا اٹھائے ہوئے دیکھی جا سکتی ہیں (اے ایف پی)

سپریم کورٹ کی طرف سے  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ’بلا‘ بطور انتخابی نشان نہ دینے کے فیصلہ اگرچہ پی ٹی آئی کے لیے آٹھ فروری کے الیکشن سے قبل ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے لیکن سابق حکمران جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ میدان خالی نہیں چھوڑے گی۔

 اب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ تمام امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات لڑیں گے اور انہیں الیکشن کمیشن کی طرف سے مختلف نشانات جاری کر دیئے گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے اس حوالے سے ایک ویب پورٹل بھی تخلیق کیا، جہاں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ان کے نام اور انتخابی نشان کے ساتھ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ 

تاہم دوسری جانب ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرپارٹی انتخابات میں جو غلطیاں کیں انہیں کے سبب سے ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہونا پڑا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ’بلا‘ بطور انتخابی نشان نہ دینے کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق حکمران جماعت کے ٹکٹوں پر آٹھ فروری کے انتخابات لڑنے والوں کو آزاد امیداروں کی حیثیت سے مختلف نشانات کی فہرست جاری کر دی ہے۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے اس حوالے سے ایک ویب پورٹل بھی تخلیق کیا، جہاں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ان کے نام اور انتخابی نشان کے ساتھ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو دیگر بڑی سیاسی جماعتیں کیسے دیکھ رہی ہیں یہی جاننے کے لیے ہم نے تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے گفتگو کی۔ 

پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکرٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’پی ایم ایل این کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کا انتخابی نشان بلا ہوتا ہم تب بھی تیار تھے اب بلا نہیں ہے تو ہم اب بھی تیار ہیں۔‘

ان کے خیال میں پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت فروغ پائے گی اور تمام جماعتوں میں انٹرا پارٹی انتخابات کا عمل مزید بہتر، منظم اور شفاف ہو گا۔

’اور یہ پاکستان کے لیے ایک بہت اچھی خبر ہے۔‘

عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے پیس ہونے والے معاملات کا کوئی سیاسی جواز نہیں ہوتا۔ نہ ان کے نتائج سے عدالتیں پہلے مرعوب ہوئی ہیں نہ اب ہوتی ہیں۔

’عدالتوں کو صرف اور صرف قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے۔

عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جو قانونی غلطیاں کیں ان کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔

’انٹرا پارٹی الیکشن آج کی بات نہیں بلکہ گذشتہ چار پانچ سال سے ان کی یہ کہانی چل رہی تھی۔ 2020 سے انہیں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا کہا جا رہا تھا لیکن انہوں نے اسے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘

مسلم لیگ ن کی رہنما نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی نظریاتی کا ٹرمپ کارڈ کھیلنے کی کوشش بھی ان کے لیے الٹی پڑ گئی۔ اس سب سے ان کی غیر سنجیدگی اور غیر سیاسی ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بینچ کے پاس پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھی۔

’انٹرا پارٹی الیکشن آپ نہیں کروا سکے۔ آپ الیکش کا ڈرامہ بھی صحیح نہیں کر سکے۔ آپ کو ئی جواز بھی نہیں دے سکے۔ نہ کوئی کاغذ ریکارڈ پر لا سکے۔ پھر آپ مختلف عدالتوں میں جھوٹ بولتے رہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی قانونی طور پر جو فیصلہ بنتا تھا وہ اس بینچ نے دیا۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے انہیں کوئی نتائج نظر نہیں آ رہے۔

’یہ لوگ (پی ٹی آئی والے) کہا کرتے تھے کہ ہم بہت مقبول ہیں اور کھمبے کھڑے کریں گے تو سارے کھمبے جیت جائیں گے۔ اللہ نے شاید انہیں کھمبا کھڑا کرنے کا موقع دیا ہے۔ تو اب وہ کھمبے کھڑے کر کے انتخابات لڑیں۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر کا انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ مشکل وقت میں کسی فرد یا جماعت کے ساتھ ہمدردی کے جذبات کا ابھرنا ایک فطری عمل ہے، جو اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

’لیکن درحقیقت پی ٹی آئی نے کبھی قانون یا قانونی اداروں کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تاریخوں کے ساتھ بتایا کہ کب کب پی ٹی آئی نے قانون کی خلاف ورزی کی اور کیسے اسے بار بار نوٹس جاری کیے گئے اور رعایتیں دی جاتی رہیں، لیکن انہوں نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔   

’اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ انسانی ہمدردی میں قانون کو نظر انداز کر دیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ فیصلہ ٹھیک ہے ہاں ہمدردی کے جذبات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اگر وہ قانونی تقاضے پورے کر لیتے تو ان کے ساتھ یہ نہ ہوتا ۔‘

ان کا کہنا تھا: ’پارلیمان، الیکشن کمیشن، عدالتیں، سیاسی جماعتیں ان کے حوالے سے   پی ٹی آئی ہمیشہ سے اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے اور انہوں نے ہمیشہ آئین اور قانون پر خود کو فوقیت دی ہے۔‘

بقول تاج حیدر: ’جب ہم الیکشن ریفارمز کر رہے تھے اور میں اس سینٹ کمیٹی کا سربراہ تھا اس میں بھی پی ٹی آئی کا طرز عمل انتہائی غیر جمہوری تھا نہ وہ اس میں اپنا کوئی حصہ بھی نہیں ڈال رہے تھے بلکہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔' 

ان کے خیال میں پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن جانے سے انتخابات پر ضرور اثر ہو گا لیکن عوام دوسری سیاسی جماعتوں کے ادوار میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو بھی یاد رکھیں گے۔

’عوام صرف یہ نہیں دیکھیں گے کہ ان (پی ٹی آئی) کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے بلکہ یہ بھی دیکھیں گے کہ کتنے ہزار دہشت گردوں کو پی ٹی آئی حکومت نے واپس لا کر سیٹل کروایا، جس کے نتیجے میں ہمارے فوجی جوانوں اور شہریوں کی شہادتیں ہوئیں۔‘

پیپلز پارٹی کے خلاف بھی انتخابی بےقائدگیوں کا گلہ کرتے ہوئے سینیٹر تاج حیدر نے الزام لگایا کہ این اے 127 میں بلاول بھٹو امیدوار ہیں جب کہ این اے 163 میں فیاض بھٹی کو آزاد امیدوار بنایا گیا کیونکہ انہوں نے پہلے استحکام  پاکستان پارٹی اور بعد ازاں پیپلز پارٹی ٹکٹ پیش کیا۔

جماعت اسلامی کے ترجمان قیصر شریف نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اس وقت ایسے انتخابات کی ضرورت ہے، جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو۔ 

’اور ایسا صرف آزاد اور منصفانہ انتخابات سے ہی ممکن ہے، جن میں تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کی سطح پر مہمات کا موقع ملے۔

’اداروں کو اس تاثر کو زائل کرنا ہو گا کہ کسی پارٹی کو خصوصی تعاون مل رہا ہے اور کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر یہ تاثر عملی طور پر زائل نہ کیا گیا تو اس کا نقصان پورے ملک کو ہو گا۔ پھر کوئی الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کرے گا۔‘

قیصر شریف کہتے ہیں: ’جماعت اسلامی ملک کے اہم اداروں کا وقار بحال کرنا چاہتی ہے اور اسی لیے ہم دوبارہ مشورہ دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن نیوٹرل ہوں۔‘

پاکستان تحریک انصاف کا موقف

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے گذشتہ شب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بلا رہے نہ رہے پاکستان کی عوام عمران خان کی آواز پر ووٹ دیں گے۔ انشا اللہ جو قوتیں اس کو ہٹانا چاہتی ہیں، آٹھ فروری کو انہیں شکست ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہمیں بلے سے محروم کیا، ہم سے 227 مخصوص نشستیں چلی گئیں، ہمارے سارے امیدوار آزاد نشانوں پر الیکشن لڑیں گے۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما تیمور سلیم خان جھگڑا نے سماجی ربطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں اپنی جماعت کے انتخابی نشان بلے چھینے جانے پر ایک ویڈیو بیان دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے دھاندلی کی کہانیاں مزاحیہ خیز ہیں۔ ’ہم سے نہ صرف پی ٹی آئی کا بلے چھین لیا گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ آر اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ایم پی اے اور ایم این اے کے ٹکٹ ہولڈرز کو ایک ہی نشان نہ دیں۔ یہ ہنسنے والی بات ہوتی اگر یہ اتنی افسوسناک بات نہ ہوتی۔ میں اسے عدالت میں چیلنج کروں گا۔ لیکن یاد رکھیں اس وقت ہمارا نشان عمران خان ہے اور پاکستان آٹھ فروری کو ہزار نشانوں پر بھی انہیں ووٹ دے گا۔‘

اس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے امیدواروں کے انتخابی نشان کو سماجی ربطوں کی ویب سائٹس پر واضح کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے یہ اپیل کی ہے کہ اس کے ووٹرز صرف پی ٹی آئی کی فہرست میں شامل امیدواروں کو ووٹ دیں۔

بلے کی واپسی کا کوئی قانونی راستہ ہے؟

قانونی ماہرین کے خیال میں بلا بطور انتخابی نشان واپس حاصل کرنے کے لیے حوالے پی ٹی آئی کے پاس اب کوئی قانونی راستہ باقی نہیں رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایڈوکیٹ میاں داؤد کے خیال میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت میں ہی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ہر ایک کو الگ انتخابی نشان ملے گا۔ عام انتخابات میں جو ایک آزاد امیدوار کی حیثیت ہے وہی ان کی ہوگی اور بس۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست 30 دن کے اندر داخل کر سکتی ہے لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کر سکتی۔  

ایڈوکیٹ سپریم کورٹ شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہفتے کو سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کا پی ٹی آئی پر برا اثر ہوگا کیونکہ ووٹر کنفیوز ہوں گے۔  

’عام دیہاتی لوگ تو انتخابی نشان سے ہی امیدوار کو پہچانتے ہیں اور اسی نشان کو ہی یاد رکھتے ہیں۔ اگر ووٹر کنفیوز ہو جائیں تو اس کا پارٹی کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔‘

شاہ خاور کے مطابق پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف کچھ  بھی نہیں کر سکتی جس کی وجہ یہ ہے کہ اب انتخابی نشانات الاٹ ہو چکے ہیں جو انہوں نے بطور آزاد امیدوار قبول بھی کر لیے ہیں۔ 

’کہا جا رہا تھا کہ نظر ثانی کا آپشن موجود ہے لیکن اب تو انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے سب چیزیں سیٹل ہو چکی ہیں، ریویو کی درخواست کرتے بھی ہیں تو اس کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اب کوئی دائرہ کار نہیں بچا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست