آٹھ فروری کے انتخابات پر سکیورٹی کے گہرے بادل

سابق آئی جی پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام کے مطابق شدید سیاسی تناؤ اور عسکریت پسندی کی حالیہ لہر کی وجہ سے سکیورٹی اداروں کے لیے انتخابات منعقد کروانا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔

سکیورٹی اہلکار یکم فروری 2024 کو کوئٹہ میں بم دھماکے کے مقام پر تعینات۔ 31 جنوری کو دو انتخابی امیدواروں پر کوئٹہ میں ہینڈ گرینیڈز سے حملہ کیا گیا تھا (بنارس خان / اے ایف پی)

پاکستان میں عام انتخابات میں چند دن ہی باقی ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والوں کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ملک نے ایسا وقت شاید پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ عوام میں غصہ اور مایوسی بڑھ رہی ہے اور اسی طرح انہیں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد بھی حالات میں بہتری کی امید کم ہی ہے۔

پاکستان میں انتخابات ہمیشہ ہنگامہ خیز رہے ہیں۔ درحقیقت 1970 میں ہونے والے پہلے براہ راست عام انتخابات نے ملک کو توڑ دیا تھا، جس نے مشرقی پاکستان کو خونی بغاوت میں دھکیل دیا، جو بالآخر بنگلہ دیش کے قیام کا باعث بنی۔

مجھے ’ٹائم میگزین‘ کے 1977 کے ایڈیشن میں شائع ہونے والی ایک تصویر یاد آ رہی ہے جس میں ایک امیدوار کو بیلٹ باکس چوری کر کے بھاگتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس سال ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی نے مشترکہ اپوزیشن کے زبردست احتجاج کو جنم دیا۔

امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے بالآخر فوجی بغاوت کے لیے راستہ صاف کر دیا۔ تین ماہ کے اندر انتخابات کا وعدہ 11 سال تک وفا نہ ہوا اور اس پر جنرل ضیاء الحق کی موت کا سبب بننے والے طیارے کے حادثے کے بعد ہی اسے عملی جامہ پہنایا جا سکا۔

ماضی قریب میں 2013 کے انتخابات میں ہمیں ’35 پنکچر‘ جیسی اصطلاحات سننے کو ملیں اور 2018 کے انتخابات اپنے ساتھ ’سلیکٹڈ‘ حکومت کا داغ لے کر آئے۔ ملک کی انتخابی تاریخ تشدد سے بھرپور ہے جس میں 2008 کے انتخابات کے دوران سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کا المناک قتل بھی شامل ہے۔

انہی انتخابات میں سیاسی جلسوں اور امیدواروں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے خودکش بم دھماکے بھی ہوئے، جن میں درجنوں لوگ مارے گئے۔

مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے خونریز الیکشن تھے جن میں 240 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 2018 کے انتخابات سکیورٹی کے حوالے سے کافی حد تک بہتر ماحول میں ہوئے تھے۔

لیکن اس بار کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور داعش جیسے گروپوں کی دھمکیوں نے انتخابی مہم پر کالے بادلوں کا سایہ ڈال رکھا ہے۔

ملک میں 2023 میں دہشت گردی کے ڈیڑھ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے، جن کے نتیجے میں نو سو اموات ہوئیں اور دو ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ یہ واقعات خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں نمایاں طور پیش آئے جو تمام واقعات کا بالترتیب 57 فیصد اور 41 فیصد تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابھی حال ہی میں متعدد سیاسی امیدواروں اور کارکنوں کو انتخابات سے قبل سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ صورت حال کو مزید کشیدہ بناتے ہوئے کوہستان میں علما نے خواتین امیدواروں کے خلاف فتویٰ اور جمہوریت میں ان کی شرکت کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ خون کی بدبو پہلے ہی ہوا میں موجود ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بغیر ہونے والے انتخابات پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ عملی طور پر تمام ریاستی اداروں کی طرف سے اختیارات کے بےدریغ استعمال کی وجہ برابری کا مقابلہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے دوسری بڑی جماعتیں اس پر خوش ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگلی باری کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔

اس تاثر کی وجہ سے کہ انتخابات ایک ’فکسڈ میچ‘ محسوس ہوتے ہیں۔ اس سال انتخابات سے متعلق سرگرمیوں میں روایتی جوش و خروش کا فقدان ہے اور امن و امان کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے۔ بلوچستان خاص طور پر بی ایل اے کی سرگرمیوں میں اضافے اور لاپتہ افراد کے حوالے سے ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے یہ صورت حال مزید غیر مستحکم ہے۔ گلگت بلتستان میں احتجاج بھی اتنا ہی تشویش ناک ہے۔

بہت سے سیاسی رہنماؤں کو دھمکی آمیز کالیں موصول ہوئی ہیں خاص طور پر بھتے کے مطالبے کے لیے۔ شرپسندوں کے مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں ان کی جانب سے جوابی کارروائی کا امکان ہے۔ اس میں صرف غیر ریاستی عناصر ملوث نہیں ہیں۔ ’ڈیپ سٹیٹ‘ کی بعض طاقتیں بھی بےشرمی سے امیدواروں کو اپنے مخالفین سے ہاتھ ملانے پر مجبور کر رہی ہیں۔

پولیس سروس میں خدمات انجام دیتے ہوئے میں نے 1990 کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ چند ایک کو چھوڑ کر، ہمارے سیاست دان اور دیگر طاقتیں جیتنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

اگر بہت سے آزاد امیدوار جیت جاتے ہیں تو ایسی جوڑ توڑ کی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی۔ اس طرح کے حالات موجودہ کشیدہ ماحول کو مزید خراب کر دیں گے۔

حکمرانی کے مسائل اور شدید سیاسی مسابقت کے درمیان عسکریت پسندی اور جرائم کی اس لہر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بہت بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔

پولیس سروس میں خدمات انجام دیتے ہوئے میں نے 1990 کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ چند ایک کو چھوڑ کر، ہمارے سیاست دان اور دیگر طاقتیں جیتنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کا عمل ایسی صورت حال میں انتہائی مشکل ہے جہاں ’بھیڑ چال‘ جیسی ذہنیت موجود ہو۔

سکیورٹی اداروں کو صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ صوبائی ایگزیکٹوز اور پولیس سربراہان پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اختیارات کا غلط استعمال انہیں نہ صرف انہیں بدنام کرے گا بلکہ یہ ان کے بچوں کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہو گا۔

سکیورٹی فورسز کو انتخابات کے دوران اپنے ردعمل کے لیے مختلف رولز آف انگیجمنٹ بنانا چاہیے۔ انتخابی اداروں کے ساتھ معاہدوں میں ’طاقت کے استعمال‘ کا ماڈل واضح ہونا چاہیے۔ پولیس کا اولین فرض محض غیر جانبداری اور اخلاقی طرز عمل کو برقرار رکھنا ہے۔ اسے سیاسی اجتماعات کی اجازت دینی چاہیے لیکن ضرورت پڑنے پر قانون شکنی کرنے والوں کو حراست میں بھی لینا چاہیے۔

الیکشن میں سکیورٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ خواتین کو شامل کیا جائے۔ بروقت انٹیلی جنس شیئرنگ کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ کسی واقعے پر رد عمل کی بجائے پیشگی اقدامات کرنا اہم ہے۔ پولیس کی سخت تربیت، معلومات اکٹھا کرنا، سٹریٹجک طور پر چوکس رہنا اور مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اتحاد بھی الیکشن سے پہلے اور اس دن بدامنی پر قابو پانے میں مدد کرے گا۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی رابطے بہتر بنائیں کیونکہ انہیں عوام سے رابطے کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس مقصد کے لیے انہیں ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ وہ ان کمیونٹیز کو یاد کروائیں کہ وہ جمہوریت اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے موجود ہیں۔

انتخابات ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب عوام کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے انہیں اپنی پوری توجہ اسی نقطے پر مرکوز رکھنا ہو گی کیوں کہ سکیورٹی کے علاوہ کسی اور ایجنڈے پر عمل درآمد کروا کر ان کی توجہ ہٹانے کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔

اس لیے تمام ایجنسیوں کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کے لیے کسی بھی مطالبے کے خلاف جائیں۔ انہیں صورت حال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں لوگوں کی حفاظت ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر تاریخ نے اجازت دی تو ہم انتخابات میں سخت سکیورٹی کے لیے تیار ہیں۔

ایک بار پھر گمبھیر تاریخ تحریر کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر کلیم امام سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اور وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر