پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح دارالحکومت اسلام آباد میں بھی الیکشن لڑنے والے امیدوار اپنی اپنی مہم چلا رہے ہیں۔
ان میں خواجہ سرا نایاب علی بھی ہیں جو اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں این اے 46 اور 47 سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔
اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی نایاب 2018 میں اسلام آباد آئیں اور تب سے شہر کے مضافات میں واقع علاقہ ملپور کی رہائشی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے 31 سالہ نایاب علی سے گفتگو میں جاننے کی کوشش کی کہ وہ انتخابات میں کیوں حصہ لے رہی ہیں اور جیتنے کی صورت میں وہ ایسا کیا کریں گی جو انہیں دیگر امیدواروں سے منفرد رکھے گا۔
نایاب 2018 میں اپنے آبائی علاقے اوکاڑہ سے الیکشن لڑ چکی ہیں۔ وہ ملک بھر سے واحد خواجہ سرا ہیں جو قومی اسمبلی کی عام نشست پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔
نایاب کے مطابق کچھ خطرات کی وجہ سے انہیں اوکاڑہ سے اسلام آباد شفٹ ہونا پڑا۔
’اس وقت میرے گھر اور مجھ پر حملہ کیا گیا کہ میں الیکشن میں حصہ کیوں لے رہی ہوں؟ میرے مخالفین نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔‘
نایاب کہتی ہیں کہ انہیں ووٹ کے علاوہ لوگوں سے عزت اور قبولیت کی توقع ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی نایاب چھ ایوارڈ اپنے نام کر چکی ہیں جس میں فرینکو جرمن پرائز اینڈ رول آف لا بھی شامل ہے۔
یہ ایوارڈ انہیں 2020 میں جرمنی اور فرانس کی حکومتوں نے دیا۔
وہ کئی روز سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ اس دوران انہیں 28 جنوری کو ایک خلاف معمول واقعے کا سامنا کرنا پڑا۔
نایاب کی ساتھی میری نے بتایا کہ وہ ڈر کی وجہ سے اس طرح مہم نہیں چلا سکتے جس طرح دیگر امیدوار چلا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہفتہ وار بازار میں چند شدت پسندوں نے ان پر حملہ کیا اور اطراف میں دیگر افراد کو ورغلاتے رہے کہ خواجہ سرا گناہ گار ہیں اور انہیں ووٹ دینا گناہ کا کام ہے۔
’انہوں نے مجھے اور میری ساتھیوں پر حملہ کیا اور ہمیں مارا۔‘
انہوں نے کہا ’ہم نہیں چاہتے کہ ہم پر ترس کھایا جائے بلکہ ایسے مواقع پیدا کیے جائیں کہ ہم باعزت طریقے سے اپنا روزگار کما سکیں بلکہ معاشرے میں دیگر افراد کی طرح زندگی گزار سکیں۔‘
’انہیں ووٹ کیوں دیا جائے؟‘
اس سوال پر نایاب نے کہا کہ ’عوام کو سیاسی نظام پر عدم اعتماد ہے۔ انہیں کوئی ایسا فرد چاہیے کہ ان کے مسائل کی حقیقی ترجمانی کر سکے۔ سیاست کسی مرد یا عورت کی میراث نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نایاب نے کہا ان کا منشور عوامی ہے۔
’بظاہر خوبصورت نظر آنے والے شہر اسلام آباد کے گرد و نواح میں کئی کچی بستیاں موجود ہیں جہاں لوگوں کو بنیادی وسائل میسر نہیں۔‘
نایاب کے ترجیحی کاموں میں سے ایک کچی بستیوں کی سرکاری منظوری، یوتھ پالیسی کا قیام اور انسانی حقوق کی سربلندی یا پرانے انسانی حقوق کے قوانین میں ترامیم شامل ہیں۔
’ملک بھر سے خواتین کے لیے مخصوص نشستیں ہیں لیکن اسلام آباد سے کوئی ایسی نشست نہیں، میں جیتنے کی صورت میں وفاق میں خواتین کی نمائندگی سے متعلق بل پیش کروں گی۔
نایاب نے اپنے انتخابی نشان ہری مرچ سے متعلق سوال پر بتایا کہ ’یہ ایک عوامی نشان ہے کیونکہ عوام ان کے انتخابی نشان سے relate کر سکتی ہے۔
’پہلے جہاں راشن لینے جاتے تھے تو سبز مرچ مفت میں مل جاتی تھی جو اب پیسوں سے خریدنی پڑتی ہے۔‘
نایاب نے مسکراتے ہوئے کہا ’اگر تو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ مرچ کا نشان انہوں نے سیاسی جماعتوں کے لیے رکھا ہے تو وہ بالکل درست سوچ رہے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔