بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ انہوں نے تا حال یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کے ساتھ جائیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں اختر مینگل نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد ’کسی بھی ایک پارٹی کو اکثریت نہیں ملی ہے‘ اور ان کے بقول آئندہ حکومت ہچکولے کھاتی ہوئی حکومت ہو گی۔
آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد جہاں مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں اور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی نشستوں کے لحاظ سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں، وہیں بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے سب سے زیادہ 11، 11 نشستیں جیتی ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن نے 10 اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے ایک نشست جیتی ہے۔
بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج پر احتجاج اور تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے سوال پر اختر مینگل نے کہا کہ ’بلوچستان میں انتخابی نتائج کے بعد احتجاج کرنے والا جو چار جماعتی اتحاد ہے اس میں ہماری پارٹی بھی شامل ہے اور اس اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فی الحال احتجاج کا فیصلہ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام کا ہے، اتحاد کے ساتھ مل کر آئندہ کا مزید لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
اختر مینگل نے کہا کہ ’جنہوں نے ان انتخابات کا نتیجہ بنایا ہوا ہے، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح نتیجے بنانے سے ملکی سیاسی بحران ختم ہوسکتا ہے تو یہ ان کی غلط سوچ ہے۔‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان پپیلز پارٹی نے کہا ہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہو گی لیکن حکومت بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی ’تو مددگار کے طور پر بلیک میلنگ کا سلسلہ پھر جاری رہے گا اور وہ ہچکولے کھاتی ہوئی حکومت ہوگی۔‘
ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’کوئٹہ کے دو قومی حلقوں پر ہم مقابلہ کر رہے تھے۔ ایک تو کنفرم تھی، دوسری پر کافی مقابلہ تھا۔ اسی طرح کوئٹہ کے چار صوبائی حلقوں پر ہماری جیت پکی تھی۔ اس کے علاوہ خاران، نوشکی، گوادر، تربت کی نشستیں بھی پکی تھیں لیکن وڈھ کی صوبائی نشست کے علاوہ ہمیں کوئی سیٹ نہیں دی گئی اور باقی سیٹیں لے لی گئیں۔‘
بقول اختر مینگل: ’قومی اسمبلی کے تین حلقوں پر میں خود مقابلہ کر رہا تھا۔ ہمارے مخالف جو پارٹیاں تھیں انہوں نے بھی ہمیں قومی حلقوں پر ووٹ دینے کی یقین دہانی کروائی تھی تو ان کے نتائج بھی راتوں رات تبدیل کردیے گئے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔