سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منگل کو کہا کہ مارشل لا فوج بطور ادارہ نہیں لگاتی کچھ لوگوں کا انفرادی فعل ہوتا ہے اور اگر ملک میں مارشل لا کو روکا جائے تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔
2011 سے دائر کیے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو قتل کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے آج کی۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’میں مارشل لا سے بہت ڈسٹرب ہوں، ہم اس کو روکیں تو ساری چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں، مارشل لا میں تو ججوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، مارشل لا کے ماتحت قائم عدالت کو عمومی عدالت کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔
’کیا یہ مقدمہ افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کے لیے ایک موقع نہیں؟ کیا یہ موقع نہیں دونوں ادارے خود پر لگے الزامات سے دامن چھڑائیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ مارشل لا فوج نہیں چند افراد کا فعل ہوتا ہے۔
’کیا یہ غلط کاموں کا مدعا انہی انفرادی شخصیات پر ڈال کر اداروں کا ان سے لاتعلق ہونے کا موقع نہیں؟ کیا ایسا کرنا قوم کے زخم نہیں بھرے گا؟ ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور تاریخ اچھی نہیں ہے۔‘
سماعت کے آغاز میں سرکاری وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ’عدالتی معاون خالد جاوید خان بیمار ہیں وہ آئندہ سماعت پر آئیں گے۔‘
سابق جج اسد اللہ چمکنی بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں۔‘
مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’تمیز الدین خان کیس میں سپریم کورٹ نے ایک نکتہ نظر لیا، تعصب کو ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے، کوئی اور ایسا کیس نہیں جس میں جج نے بعد میں ایسی بات کی ہو، یہاں بات صرف اس تاثر کی نہیں جو اس عدالت کے بنچ کا ہے، بات عوامی سطح پر موجود اس تاثر کی ہے جو اس کیس سے متعلق موجود ہے، دہائیوں بعد 2023 میں بھی وزیراعظم نے اسمبلی میں اس کیس پر بات کی۔‘
چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ ’ہمارے سامنے جو معاملہ ہے وہ تعصب کا ہے یا سابق جج کے اعتراف کا؟‘ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’جج کےانٹرویو کا ایک حصہ تعصب کے اعتراف کا ہے۔‘
چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا کہ ’یہ تعصب کا اعتراف کہلائے گا یا غلط کاری کا اعتراف؟‘ مخدوم علی خان نے بتایا کہ ’انٹرویو میں دباؤ کی بات کی گئی ہے کہ دباؤ تھا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بنچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔ کل کوئی جج کہے مجھے بیوی کا دباؤ تھا یہ آرڈر دو ورنہ کوئی اور جگہ دیکھ لو تو یہ کس کیٹیگری میں آئے گا؟ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، دو مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں۔
’اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ لینے کو تسلیم کرنا ہے، اگر ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیصلہ متفقہ ہوتا تو جج کے بیان سے فرق نہ پڑتا، اس کیس میں مگر ایک جج کی رائے سے بھی فیصلے پر پریکٹیکل اثرات پڑتے ہیں، کیا ہم اس معاملے میں elephant in the room (Marshal Law) کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ آئین روندنے والے کا اس معاملے میں مفاد موجود تھا۔‘
کیا سزائے موت چار تین کے تناسب سے دی جا سکتی ہے؟
سماعت میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا کوئی جج کرمنل کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر وکیل کو ملامت کر سکتا ہے؟ بھٹو کے وکیل سزا معطلی کے بجائے سزا میں کمی کی استدعا کیوں کرتے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقعے پر جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال اٹھایا کہ ’کیا اپیل میں سزا کم کرنے کی استدعا تھی؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اپیل میں سزا کم کرنے کی استدعا نہ بھی ہو تو جج کو انصاف کی فراہمی کو دیکھنا ہوتا ہے، کیا یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا کیس تھا جس میں ٹرائل ہائی کورٹ نے کیا اور ایک اپیل کا حق چھینا؟ کیا سزائے موت چار تین کے تناسب سے دی جا سکتی ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کیس کے حقائق کو دیکھنا چاہیے، آپ عدالتی نظائر ہی بتا دیں۔‘
مخدوم علی خان نے کہا کہ ’جسٹس نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں کہا کہ ذوالفقار بھٹو کے وکیل نے سزا کم کرنے پر دلائل نہیں دیے۔‘
’بھٹو کیس میں بیرونی دباؤ بھی شامل تھا؟‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’کیا ہم مارشل لا دور میں دیے گئے ہر فیصلے کو دیکھیں، سپریم کورٹ میں کافی کیسز ہیں، پارلیمنٹ نے بھی مارشل لا کے فیصلوں کی توثیق کی۔ کیا ذوالفقار علی کیس میں بیرونی دباؤ تھا؟‘
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھائے کہ ’کیا بلاول بھٹو زرداری اور ذوالفقار جونیئر کو قصاص کی ادائیگی کا حکم دیا جا سکتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کیس کی مثال کسی فوجداری کیس میں نہیں دی جاتی۔‘
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے عدالت کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ ایسا ہی ظاہر کرتا ہے کہ بھٹو کیس میں بیرونی دباؤ بھی تھا، اصل سوال عدلیہ پر عوامی اعتماد کا ہے۔
’ذوالفقار علی بھٹو کیس غیر محفوظ فیصلہ ہے، میری رائے یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے ہونا چاہیے۔‘ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ہمیں وہ ریکارڈ دکھائیں، سابق جنرل مرزا اسلم بیگ کی کتاب میں زکر ہے، اس بارے میں بتائیں۔‘
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ نے سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی۔
’جو انصاف نانا کو نہ ملا وہ نواسے کو ملے گا‘
منگل کے روز ہونے والی سماعت میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری، رضا ربانی، فیصل کریم کنڈی، شیری رحمٰن، سرفراز بگٹی، ندیم افضل چن، فاروق ایچ نائیک سپریم کورٹ پہنچے۔
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا جو عدالتی قتل تھا کیا وہ فیصلہ صحیح تھا؟ پارلیمان کے اختیار سمیت تمام معاملات اس کیس سے جڑے ہیں، جس شخص نے پارلیمان اور اس عمارت کی بنیاد رکھی اس کا عدالتی قتل ہوا، یہ ادارہ اپنے ماضی کے اوپر فیصلہ پر نظر ثانی کرے گا اور اپنے اوپر سے داغ دھوئے گا، جو انصاف ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی کو نہ ملا یہ انصاف نواسے کو ملے گا۔‘
شیری رحمٰن نے سماعت سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم برسوں سے اس ریفرنس پر سماعت کے منتظر تھے، رات کے اندھیرے میں جوڈیشل قتل کیا، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے قربانی دی۔‘
کیس کا پس منظر
2011 میں سابق صدر زرداری کی جانب سے دائر ہونے والے ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں آٹھ سماعتیں ہو چکی ہیں۔ صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت دو جنوری 2012 کو جبکہ 11 سال قبل آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جس کے بعد مزید کوئی سماعت نہیں ہو سکی تھی۔
صدارتی ریفرنس پر پہلی پانچ سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔
تاہم حال ہی میں جب اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی میں نو رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت 12 دسمبر اور آٹھ جنوری کو کی تھی۔