دوحہ معاہدے کے چار سال، کیا طالبان کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا؟

طالبان ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ اقتدار میں زیادہ مضبوط ہیں لیکن عالمی برادری کے ساتھ ان کی حکومت تسلیم کیے جانے پر تعطل برقرار ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور طالبان کے بانی ملا عبدالغنی برادر 29 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک تقریب کے دوران امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہاتھ ملا رہے ہیں (اے ایف پی/ کریم جعفر)

چار سال قبل فروری کے ہی آخری دن امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ افغان طالبان کو ہی ہوا جو آج ایک مرتبہ پھر اقتدار میں بیٹھے ہیں۔

اگرچہ اس معاہدے کے مطابق افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے تھا، لیکن دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان میں جنگ میں مزید تیزی آئی، پہلے چند اضلاع اور پھر ایک کے بعد ایک صوبے گرتے گئے اور آخر کار طالبان مذاکرات کے ذریعے نہیں بلکہ طاقت کے ذریعے کابل پہنچ گئے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دوحہ معاہدے پر دستخط کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر کہا ہے کہ امریکیوں کے جانی و مالی نقصانات اور سرد جنگ نے انہیں مجبور کیا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کریں۔

انہوں نے ’میہان نیوز‘ نامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکیوں پر دوحہ معاہدے کی 1700 بار خلاف ورزی کا الزام لگایا تاہم اپنے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس معاہدے کی ایک بھی خلاف ورزی نہیں کی۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق امریکیوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دوحہ معاہدے کے بعد وجود میں آنے والی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے، افغانستان کی مدد کریں گے، اس ملک کے خلاف اقدامات نہیں کریں گے اور پابندیوں کو ختم کیا جائے گا لیکن یہ وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔

افغان تجزیہ کار مانتے ہیں کہ دوحہ معاہدے نے طالبان کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کیا۔ ان کے مطابق افغان عوام بالخصوص خواتین اپنی آزادیوں سے محروم ہو گئی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی سابق عہدیدار لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ واشنگٹن کو دوحہ معاہدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے طالبان کے ساتھ ’مشروط روابط‘ کی نئی راہیں تلاش کرنی چاہییں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دوحہ معاہدے کے چار نکات

  • پہلا: افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا
  • دوسرا: امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہ ہونا
  • تیسرا: 10 مارچ سے بین الافغان مکالمے کا آغاز
  • چوتھا: بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں ملک کے سیاسی نقشے کا تعین اور جنگ بندی پر غور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیزا نے، جو فروری 2020 میں دوحہ معاہدے پر دستخط کے وقت ٹرمپ انتظامیہ میں سینیئر پالیسی ایڈوائزر تھیں، افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں کردار ادا کیا تھا۔

افغانستان انٹرنیشنل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے دوحہ معاہدے کو ’بہت کمزور‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ طالبان کے حق میں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق دوحہ معاہدے کے تحت طالبان کو صرف یہ کہا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو امریکی مفادات کے خلاف حملے کرنے کی اجازت دینے سے باز رہیں گے۔

لیزا کرٹس نے کہا کہ داعش خراسان شاخ ایک عالمی خطرہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں طالبان اور افغانستان میں مشرق وسطیٰ کے کچھ دہشت گرد گروپ دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی سابق عہدیدار نے مزید کہا کہ دوحہ معاہدے کے بعد امریکہ ’محفوظ نہیں‘ ہے اور کسی بہتر پوزیشن میں نہیں ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی برادری طالبان کو ان کے طرزِ عمل پر جوابدہ ٹھہرانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔

طالبان کے ترجمان نے افغانستان کی سابق حکومت پر بھی الزام لگایا اور بقول ان کے اس سے دوحہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ امریکی افغانستان سے نکل جائیں۔

دوحہ کے ایک ہوٹل کے ہال میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس وقت افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔

توقع تھی کہ دوحہ میں ہونے والے اس معاہدے کے مطابق ایک جامع حکومت قائم ہوگی اور افغانستان میں امن قائم ہوگا لیکن اس معاہدے کے بعد افغانستان میں جنگ نے زور پکڑا، جس کے نتیجے میں اگست میں سابق حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ