سکوبا ڈائیونگ اور سمندر کی دنیا کے رنگ

چرنا آئی لینڈ مہم جوئی کے شوقین اور فطرت کے شاہکاروں کے متلاشی سیاحوں کے لیے پرکشش جگہ ہے، جہاں لوگ سکوبا ڈائیونگ کا شوق پورا کرنے آتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم بھی اسی مہم پر نکلی۔

دنیا بھر میں گہرے سمندروں کے بیچوں و بیچ پھیلے جزائر اپنی انفرادیت اور خوبصورتی کی وجہ سے توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی قدرت کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے سمندری علاقوں میں لگ بھگ 12 جزیرے موجود ہیں لیکن یہاں ہم بات کررہے ہیں چرنا آئی لینڈ کی، جو بحیرہ عرب میں ایک چھوٹا سا غیر آباد پاکستانی جزیرہ ہے۔ یہ دریائے حب کے دھانے سے نو کلومیٹر (5.6 میل) مغرب میں واقع ہے۔

 چرنا آئی لینڈ مہم جوئی کے شوقین اور فطرت کے شاہکاروں کے متلاشی سیاحوں کے لیے پرکشش جگہ ہے، جہاں لوگ سکوبا ڈائیونگ کا شوق پورا کرنے آتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم بھی اسی مہم پر نکلی۔ آئیے آپ کو بھی اپنے ساتھ چرنا آئی لینڈ کا سفر کرواتے ہیں۔

جب ہم صبح سویرے تمام تیاری کے ساتھ چرنا جزیرے کے لیے روانہ ہوئے تو موسم کا مزاج بہتر تھا، نہ زیادہ سردی تھی اور نہ گرمی۔ کراچی سے 40 کلومیٹر کا فاصلہ تھا، جس کے لیے ہم نے لیاری ایکسپریس وے کا انتخاب کیا۔

طویل سفر طے کرنے کے بعد ہاکس بے آیا، مزید آگے بڑھیں تو پہاڑی ٹیلوں کے درمیان بل کھاتا راستہ منفرد نظارہ پیش کر رہا تھا۔ گلابی اور زردی مائل ٹیلے آہستہ آہستہ ختم ہوئے تو سامنے سمندر کے نیلگوں پانی پر نگاہ پڑی، جسے دیکھ کر ہم اپنی تھکاوٹ بھول گئے۔ کراچی سے 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم پہنچ گئے سنہرا بیچ، جہاں بحیرہ عرب نے اپنا سحر طاری کر رکھا تھا، لیکن ابھی سفر ختم نہیں ہوا تھا۔

چرنا ایک پہاڑ ہے جو سمندر کے بیچوں بیچ موجود ہے۔ اس جزیرے تک پہنچنے کے لیے مبارک ولیج اور سنہرا بیچ کی بندرگاہوں  سے کشتی کے ذریعے جایا جاسکتا ہے۔ سنہرا بیچ سے چرنا جزیرہ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہاں سے ہم نے کشتی کرائے پر لی اور اب ہم اپنے ایڈونچر کے لیے کشتی کے ذریعے سفر کر رہے تھے۔

چاروں طرف ٹھاٹیں مارتا سمندر تھا اور نیلگوں پانی سورج کی گرتی کرنوں سے ٹمٹما رہا تھا، نظارے ایسے کہ ہر نگاہ حیران ہو جائے۔

کشتی کے عادی افراد کے لیے ایک گھنٹے کا سفر کوئی مشکل بات نہ تھی لیکن چونکہ ہمارے لیے یہ تجربہ نیا تھا اور گھنٹوں لہروں پر ڈولتی کشتی پر بیٹھنے سے  ’سی سکنس‘ (یعنی متلی ہونا، قے یا چکر آنا) معمول کی بات ہوتی ہے، لہذا ہم اس صورت حال سے بچنے کے لیے ادویات ساتھ لے کر گھر سے نکلے تھے۔

سمندر کے سفر سے قبل

  • ہلکا پھلکا ناشتہ کریں
  • سی سکنس سے بچنے کے لیے ادویات ساتھ رکھیں
  • سن بلاک کا استعمال کریں

یہ کشتیاں تقریباً چھ سے سات ناٹس یعنی 11 سے 12 کلومیٹر فی گھنٹہ کی انتہائی سست رفتار سے چلتی ہیں اور سکوبا ڈائیونگ کے لیے مقررہ مقام پر پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ ہی جاتا ہے۔

چرنا آئی لینڈ پر سکوبا ڈائیونگ کا پہلا تجربہ

چرنا جزیرے پر پہنچ کر کشتی لنگر انداز کی گئی۔ چرنا صرف ایک جزیرہ نہیں بلکہ پاکستان کے لیے قدرت کا حسین تحفہ بھی ہے۔ اس مقام پر پہاڑی ٹیلے ہیں، زیر سمندر بھی چٹانیں موجود ہیں، جہاں مچھلیوں کی افزائش بہتر ہوتی ہے۔

اسی چرنا جزیرے پر سی سپورٹس کے بھی بہترین مواقع موجود ہیں، جس کا تجربہ کرنے کے لیے مہم جوئی کے شوقین افراد یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ بات ہو رہی ہے کہ غوطہ خوری، سنورکلنگ اور سکوبا ڈائیونگ کی اور اسی ایڈونچر کی غرض سے ہم بھی یہاں پہنچے تھے۔

جزیرے پر مہم جوئی کے لیے تربیت یافتہ سکوبا ڈائیورز محمد سعود، عامر علی اور ایکسپلورر نعیم الرحمٰن بھی ہمارے ساتھ موجود تھے۔

سکوبا ڈائیونگ یا غوطہ خوری کے لیے بہت سارے ساز و سامان کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر کوئی ایک چیز بھی رہ جائے تو بڑی مشکل پیدا ہوسکتی ہے۔

پہلے سنورکلنگ کروائی جاتی ہے اور پھر شروع ہوتا ہے سکوبا کا مرحلہ جس کے لیے یہ سازو سامان لے جانا ضروری ہوتا ہے۔

ان اشیا میں سکوبا ماسک اور سنورکل، ریگولیٹر، ویٹ، آکسیجن ٹینکس یعنی سکوبا کرنے کے لیے کمپریسڈ ہوا کے بڑے سلینڈرز (فی غوطہ خور دو سے تین)، سکوبا کے ضروری ساز و سامان سے بھرا ایک معقول سائز کا بیگ، کیمرے سے جڑی چیزوں کا اضافی بیگ، ویٹ بیلٹ یا وزن دار پٹے اور اس کے اضافی ویٹ، ذاتی چیزوں کو گیلا ہونے سے محفوظ رکھنے والا ایک بیگ جو پانی میں بھی چیزوں کو گیلا ہونے سے بچائے رکھتا ہے، تولیے اور کھانے پینے کی اشیا سے لدا ہوا آئس باکس شامل ہے۔

محمد سعود تربیت یافتہ  ڈائیورز ہیں، انہوں نے ہمیں ڈائیونگ سے قبل کچھ مراحل سے گزارا جیسے سب سے پہلے لائف جیکٹس پہنا کر سنورکلنگ کروائی جو سطح سمندر کے اوپر کی جاتی ہے اور جس کا مقصد سمندر کے خوف کو دور کرنے  کے ساتھ سکوبا کے لیے حوصلہ بڑھانا تھا۔

سنورکلنگ کا مرحلہ اس وقت تک جاری رکھا جاتا ہے جب تک ہم جسمانی اور ذہنی طور پر گہرے سمندر میں جانے یعنی سکوبا کے لیے تیار نہ ہو جائیں، اس کے بعد لائف جیکٹس اتار کر سکوبا بی سی ڈی (Buoyancy Contro Device) پہنائی جاتی ہے اور ماسک اور سنورکل لگایا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھوڑی دیر بعد وہ وقت آ ہی گیا اور ہم نے سطح سمندر پر مختصر سیفٹی بریفنگ لی۔

محمد سعود نے بتایا کہ سمندر میں اترنے کے بعد اشاروں کی زبان میں بات کرنی ہوگی، جیسے سکوبا کے دوران سمندر کی مزید گہرائی میں اترنا ہوا تو تھمب ڈاؤن کرنا ہوگا اور سب بہتر ہے کا اشارہ دینے کے لیے ہاتھوں سے (واہ) کا اشارہ کرنا ہے جبکہ تھمب اپ کا مطلب سمندر کی گہرائی سے باہر نکالنا ہوگا۔

بالآخر خوف اور جوش کے ساتھ ہم اپنے سکوبا ڈائیورز کے ساتھ اس ایڈونچر کے لیے گہرائی میں اترے۔ سمندر کے اندر جاتے ہی ایک الگ سا سحر طاری ہوگیا، جتنے رنگ سمندر کے باہر کی دنیا میں تھے اس سے کہیں زیادہ رنگ سمندر کے اندر کی دنیا میں دکھائی دیے۔ پانی اس قدر صاف تھا کہ تہہ میں موجود پتھر بھی واضح دکھائی دیے۔

ہم نے وہاں رنگین مچھلیوں کی بہتات دیکھی۔ سمندر کے اندر چٹانوں اور سمندری حیات کی کثرت اور وسعت اسے منفرد اور خاص بنا رہی تھی، جن میں سٹنگ رے مچھلی، دھبے دار مورے ایل، سٹون فش، بینرفش، بےبی بارکوڈا، پیرٹ فش اور دیگر اقسام کی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے خاندان شامل تھے۔

میں اپنے ڈائیور کے ساتھ دو مرتبہ سکوبا کرنے گئی اور اس دوران ہم 20 منٹ تک سمندر میں رہے۔ شام ہونے لگی تو ہم نے واپسی کی تیاری کی۔

سطح سمندر پر پہنچ کر بھی سکوبا ڈائیونگ کے تجربے کا سحر طاری رہا۔

ہم ’آبی کھیلوں‘ سے محبت رکھنے والوں میں تجربات تقسیم کرنا چاہتے ہیں:  ڈائیورز

نعیم الرحمٰن ایکسپلورر ہیں اور متعدد بار سکوبا ڈائیونگ کر چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ دنیا کا 71 فیصد پانی ہے اور باقی خشکی ہے، لیکن سب سے کم سمندری دنیا کو ایکسپلور کیا جاتا ہے۔

بقول نعیم الرحمٰن: ’سکوبا ڈائیونگ کی بات کریں تو لوگوں کے ذہن میں یہ شک آتا ہے کہ کہیں یہ مہنگا تو نہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ کم سے کم چار اور زیادہ سے زیادہ نو ہزار روپے کا ایڈونچر ہے، اتنے کا تو ہم ایک وقت میں کھانا کھا لیتے ہیں تو کیوں نہ ہم ایسی چیز کریں جو ہم نے کبھی نہیں دیکھی،کبھی نہیں کی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’جب آپ نیچر میں ہوتے ہیں تو آپ کا دارومدار خود پر ہوتا ہے، اگر یہاں کوئی حادثہ ہو جائے تو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ آپ کو سیفٹی پروٹوکولز پر بالکل سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔‘

نعیم نے بتایا کہ ’ہر ہفتے پانچ سے سات سو لوگ یہاں ڈائیو کرتے ہیں، میں کئی سال سے میں ڈائیو کر رہا ہوں،کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا۔‘

اسی طرح محمد سعود پاکستان کے ان چند افراد میں شامل ہیں، جنہوں نے پیڈی ڈائیو ماسٹر کا کورس کر رکھا ہے۔ عموماً لوگ ڈائیونگ کا کورس کرتے ہیں اور وہ صرف خود ہی ڈائیونگ کر سکتے ہیں، لیکن پیڈی ڈائیورز وہ ہیں جو دوسرے کو بھی ڈائیو کروا سکتے ہیں اور ان کی ہمت بھی بڑھاتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’چرنا جزیرہ ڈائیونگ کے لیے بہترین مقام ہے، یہاں 10 سال سے ڈائیونگ ہو رہی ہے، اس مقام پر سمندری حیات بہت اچھی ہے اور یہاں لوگوں کو اچھا ماحول ملتا ہے۔‘

سمندر میں ہونے والے تجربات

  1.  سلو موشن ورلڈ ۔ زیر سمندر ایک ایسی دنیا تھی جہاں بہت ٹھہراؤ تھا۔
  2.  صفر کشش ثقل ۔ انسان کا وزن اسے نیچے لے جاتا ہے لیکن جیکٹ میں ہوا بھرنے سے آپ اوپر آ جاتے ہیں، بنیادی طور پر آپ بے وزن تھے۔
  3.  بے آواز ماحول ۔ زیر سمندر کوئی آواز نہیں تھی،صرف آپ کو اپنی سانس کی آواز آرہی تھی۔

محمد سعد نے بتایا: ’ہماری زیادہ سے زیادہ گہرائی 30 میٹر ہوتی ہے، اوپن واٹر کی 18 میٹر کی ہوتی ہے، جہاں گہرائی زیادہ ہوگی وہاں سمندر میں کم سے کم وقت کے لیے ٹھہر سکتے ہیں اور جہاں گہرائی کم ہوگی وہاں زیادہ وقت گزار سکتے ہیں۔

’جہاں ہم ڈائیو کرواتے ہیں وہاں گہرائی کم از کم پانچ میٹر رکھتے ہیں کیونکہ لوگ پہلی بار ڈائیو کر رہے ہوتے ہیں۔‘

سعود نے مزید بتایا کہ ’اکتوبر کے شروع سے فروری کے آخر تک ڈائیونگ کا بہترین سیزن ہوتا ہے، سردی میں پانی گرم اور صاف ہوتا ہے، لہذا اچھی ڈائیونگ ہوتی ہے۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ کے شعبے کو حکومتی پزیرائی حاصل نہیں جبکہ ہمارا سمندر  دوسرے ممالک سے کم نہیں۔ ’یہاں ڈائیونگ کے لیے بہت سارے مقام ہیں لیکن ہمیں حکومتی توجہ نہ ملنے کے باعث آگے جانے میں اور نئے مقامات کو دریافت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘

عامر علی بھی سکوبا ٹیم کا حصہ اور ڈائیور ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا: ’عموماً یہ تصور ہے کہ یہ ایک مہنگا شوق ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ سب سے سستا ہے جبکہ دنیا میں سکوبا کے لیے لوگ 100 سے 150 ڈالر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے زور دیا کہ ہر کسی کو ایک بار لازمی یہاں آکر اس کا تجربہ حاصل کرنا چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے سفارش کی کہ ان کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔ ’جو ہم کروا رہے ہیں کرنے دیں۔ ہم ہر کسی کو دنیا کے پرخطر اور جرات مند کھیلوں میں سے ایک کھیل کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان