پیٹ نیبن میکسویل گذشتہ سال دسمبر میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے عروج پر اپنے پیچھے حاملہ بیوی اور ایک چار سالہ بیٹی کو چھوڑ کر انڈیا سے اسرائیل گئے تھے۔ روزگار کی تلاش میں دوسرے ملک منتقل ہونے کا فیصلہ آسان نہیں تھا خاص طور پر اس طرح کے شورش ذدہ خطے میں۔
میکسویل کے کزن جوس ڈینس نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ مالی وجوہات کے تحت ایک انتخاب تھا۔ میکسویل ان سینکڑوں انڈین نوجوانوں میں شامل ہیں جو بلیو کالر نوکریاں کے لیے خطرناک خطوں میں جانے کا انتخاب کر رہے ہیں، جن میں روس اور یوکرین کا میدان جنگ بھی شامل ہے۔
ماہرینِ معاشیات اسے انڈیا میں اچھی تنخواہ والی ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے ’انتہائی مایوس کن‘ صورت حال قرار دیتے ہیں۔
چار مارچ کو گھر والوں کو ایک کال پر بتایا گیا کہ 31 سالہ میکسویل شمالی اسرائیل میں ایک پولٹری فارم پر ٹینک شکن میزائل حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں۔ ڈینس نے بتایا: ’وہ دو دیگر انڈین شہریوں کے ساتھ ہسپتال میں داخل تھے لیکن بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی موت ہو گئی ہے۔‘
شورش زدہ علاقوں میں کام کے فیصلے میں بہت زیادہ خطرات ہوتے ہیں حالانکہ کچھ معاملات میں اسے حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ ہندو قوم پرست نریندر مودی کی انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت 40 ہزار انڈین شہریوں کو اسرائیل میں تعمیرات اور نرسنگ کے شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی اور اس سے غزہ جنگ کے دوران فلسطینی مزدوروں کی کمی کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔
انڈین حکومت کے اس اقدام کو کچھ حلقوں میں تنقید کا بھی سامنا ہے۔ اس سکیم کے مخالفین نے سوال کیا کہ گھر کے قریب ملازمت کے بہتر اور محفوظ مواقع کیوں دستیاب نہیں کیے جاسکتے۔
جس وقت اس سکیم کا اعلان کیا گیا تھا، حکومت نے کہا تھا کہ انڈیا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ ان کے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا: ’اس معاہدے کے ذریعے ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ وہاں (اسرائیل) نقل مکانی کو منظم کیا جائے اور وہاں جانے والے لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں۔‘
انڈیا میں اسرائیلی سفارت خانے نے ایکس پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں حزب اللہ کی طرف سے شروع کیے گئے ’بزدلانہ دہشت گردانہ حملے‘ کی وجہ سے میکسویل کی موت اور دو دیگر انڈین شہریوں کے زخمی ہونے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئےکہا کہ یہ ’گہرا صدمہ اور غمزدہ لمحہ‘ ہے۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا: ’ہماری دعائیں اور ہمدردی فطری طور پر سوگواروں اور زخمیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ اسرائیلی طبی ادارے مکمل طور پر زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جن کا علاج ہمارا بہترین طبی عملہ کر رہا ہے۔ اسرائیل تمام شہریوں، اسرائیلی یا غیر ملکی، جو دہشت گردی کی وجہ سے زخمی یا مارے گئے ہیں، انہیں یکساں طور پر دیکھتا ہے۔‘
کیرالہ کے شہر کولم میں میکسویل کا خاندان اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ ان کے لواحقین نے بتایا کہ پسماندگان میں ان کی اہلیہ، ایک چھوٹی بیٹی، بوڑھے والدین اور دو بھائی ہیں۔
میکسویل کے کزن نے کہا: ’یہ ہمارے لیے بہت مشکل وقت ہے۔ ہم دوڑ رہے ہیں اور ان کی لاش وصول کرنے کے انتظامات کر رہے ہیں۔‘
نیبن میکسویل کے پاس انڈسٹریل ٹریننگ کا سرٹیفکیٹ تھا اور وہ دسمبر میں اسرائیل جانے سے قبل متحدہ عرب امارات میں افرادی قوت فراہم کرنے والی ایک کمپنی کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ ان کے والد، اینٹنی میکسویل نے مقامی اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اسرائیل میں (معمر افراد کی) دیکھ بھال کرنے والے (Caregiver) کے طور پر کام کرنے والے میکسویل کے بہنوئی نے انہیں نوکری حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے والد نے مزید کہا کہ نیبن میکسویل کے اسرائیل کے لیے روانہ ہونے کے ایک ہفتے بعد ان کا بھائی نیوین بھی ان کے پیچھے چلا گیا۔ نیوین، جو بنگلور میں ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتا تھا، اسرائیل میں زرعی شعبے میں بھی ملازم ہے۔ دونوں بہتر مواقع کی تلاش میں اسرائیل گئے۔
گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کی طرف سے دسیوں ہزار فلسطینیوں کے ورک پرمٹ کی معطلی نے ملک میں لیبر سیکٹر میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے جس سے انڈیا جیسے ممالک میں محنت کشوں کے لیے ملازمت کے مواقع کھل گئے۔ اسرائیل نے تعمیراتی اور زرعی شعبے میں ملازمتوں کے لیے ویزا کی پیشکش شروع کی اور دسمبر میں تقریباً آٹھ سو انڈین اسرائیل منتقل ہوئے۔
فروری تک دسیوں ہزار کارکن پورے انڈیا میں بھرتی مراکز میں اسرائیل جانے کے لیے جمع تھے اور مزدوروں کی شدید قلت کے باعث اپنے لیے ملامت کے مواقع تلاش کر رہے تھے۔
کالج سے فارغ التحصیل اور تعمیراتی کارکن انوپ سنگھ بھی ایسے ہی نوجوان تھے، جن کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ اسرائیل جانے کے لیے منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ ماہانہ تقریباً 1,200 پاؤنڈ کما پائیں گے جو انڈیا میں اسی کام کے لیے اوسط ماہانہ اجرت 300 پاؤنڈ سے چار گنا زیادہ ہے۔
انوپ سنگھ نے انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ایک مرکز میں اپنے ملازمت کے انٹرویو کے لیے انتظار کرتے وقت خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’اسی وجہ سے میں نے اسرائیل میں ملازمت کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔‘
کسی بھی خطرے کی پروا کیے بغیر ملازمت کی تلاش میں انڈین شہریوں کے لیے اسرائیل واحد منزل نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس ہیں کہ ان انڈین شہریوں کو نادانستہ طور پر یوکرین پر حملے کے لیے روسی فوج میں شامل ہونے کے لیے بھی بھرتی کیا جا رہا ہے جب وہ ’آرمی ہیلپرز‘ ملازمتوں کے اشتہارات دیکھ کر روس منتقل ہوئے تھے۔
بدھ کو روس میں انڈین سفارت خانے نے کہا کہ اسے ایک انڈین شہری محمد اصفان کی المناک موت کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔
حیدرآباد میں کپڑے فروخت کرنے والے اصفان نے نومبر میں کام کی تلاش میں دبئی کے راستے روس کا سفر کیا۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں مشرق وسطیٰ میں مقیم ایک ایجنٹ نے ’دھوکہ‘ دیا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ انہیں فرنٹ لائن پر لڑنے پر مجبور کیا جائے گا، جہاں ان کی موت واقع ہو گئی۔
انڈیا سے ایسے ’مددگاروں‘ کی تلاش کرنے والے دبئی میں مقیم ایجنٹ فیصل خان نے اپنے یوٹیوب چینل ’بابا وی لاگ‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’آپ کو لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو بس مسمار عمارتوں کو صاف کرنا ہے، اسلحہ خانے کی دیکھ بھال کرنا ہے اور ایک سال کی خدمت کے بعد آپ روس میں مستقل رہائش کے اہل ہو جائیں گے۔‘
لیکن روس پہنچنے کے بعد ایسے ریکروٹس کو اس سے برعکس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انہیں فوری طور پر جنگ کی فرنٹ لائن پر بھیج دیا جاتا ہے۔
فیصل خان کی جانب سے بھرتی کیے گئے اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک اور بے روزگار گریجویٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں ہتھیاروں کی بنیادی تربیت حاصل کرنے کے بعد مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونیتسک میں تعینات کیا گیا تھا۔ انہوں نے ایجنسی کو بتایا: ’میں لڑائی میں زخمی ہوا اور مجھے ہسپتال لے جایا گیا، تاہم میں کسی طرح بچ نکلا۔‘
فیصل خان نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ کچھ ’ہیلپرز‘ کو اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے ایک بیان میں انڈین حکومت نے تسلیم کیا کہ اسے ’معلوم ہے کہ چند انڈین شہریوں کو روسی فوج کے ساتھ سپورٹ جاب کے لیے بھرتی کیا گیا ہے لیکن ان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ روس یوکرین جنگ سے دور رہیں۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان جیسوال نے کہا کہ انڈین سفارت خانے نے ایسے ورکرز کی جلد بازیابی کے لیے یہ معاملہ متعلقہ روسی حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور روس میں بلیو کالر ملازمتوں کے لیے بھرتی کی دوڑ نے انڈیا کی ترقی کی کہانی کو دھندلا دیا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی کا پیغام یہ ہے کہ انڈیا کی معیشت دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور یہ عالمی منظرنامے کے برعکس روشن مقام ہے کیونکہ حکومت نے کاروبار اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبے شروع کیے ہیں۔
تاہم حکومت بے روزگاری کے سرکاری اعداد و شمار جاری کرنے سے گریزاں ہے اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور ملازمتوں کا معیار ایسے وقت میں تشویش کا باعث ہے جب انڈیا دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے۔
انڈین تھنک ٹینک مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ سٹڈیز کے ماہر معاشیات اور اسسٹنٹ پروفیسر اے کلائیراسن کہتے ہیں: ’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یقیناً انڈیا سے ہمیشہ افرادی قوت کی نقل مکانی دیکھی گئی ہے۔ خلیجی ہجرت میں جنوبی انڈیا سے لوگ خلیجی ممالک جاتے تھے یا پنجاب کے لوگ کینیڈا جاتے تھے۔ تمل ناڈو سے کچھ سنگاپور جا کر بس گئے۔‘
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’لیکن یہ تارکین وطن طویل عرصے سے مواقع کی تلاش میں ہیں جو ان کے پاس اپنے گھر اور ان ممالک میں ہوں جہاں وہ خود کو آباد ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں یا چند سالوں کے بعد بہت زیادہ رقم کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔ یہ واضح طور پر روس یا اسرائیل جانے والے لوگوں کی صورت حال جیسی نہیں ہے۔ جو لوگ شدت سے ان جنگی علاقوں میں جاتے ہیں وہ نہ صرف بہتر امکانات کی تلاش میں ہیں بلکہ اب انتہائی مایوسی سے دوچار ہیں اور یہ اس بین الاقوامی نقل مکانی کو دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔‘
عظیم پریم جی یونیورسٹی کی سٹیٹ آف ورکنگ انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں تنخواہ دار ملازمتوں میں اضافے کے بعد کرونا وبا اور مجموعی ترقی کی سست روی کی وجہ سے 2019 سے باقاعدہ اجرت والی ملازمتوں کی رفتار رک گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ بے روزگاری کم ہو رہی ہے لیکن یہ اب بھی زیادہ ہے جس کی شرح تمام عمر کے یونیورسٹیوں کے گریجویٹس میں 15 فیصد سے زیادہ اور 25 سال سے کم عمر کے گریجویٹس میں تقریباً 42 فیصد ہے۔
بے روزگاری میں ہونے والی اس کمی کے بھی انتباہات ہیں جیسا کہ کالیسرن پہلے کے مقابلے میں انڈین معیشت میں اب اتنی اچھی ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکامی کو نمایاں کرتے ہیں۔
وہ گِگ معیشت (فری لانسنگ) میں ملازمت کرنے والوں کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’تو جب وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ملازمت ہے تو یہ کیسا روزگار ہے؟ کیا وہ واقعی اس سے خوش ہیں؟ کیا وہ واقعی وہ (کام) کرنا چاہتے ہیں؟‘
کچھ تخمینوں کے مطابق یہ شعبہ (فری لانسنگ) انڈیا میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو ملازمت دیتا ہے اور نیسکام کی رپورٹ کے مطابق 2030 تک ان اعداد و شمار کے تقریباً ڈھائی کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا: ’سویگی اور زوماٹو کے لیے ڈیلیوری کرنے والے لڑکوں سے پوچھیں۔ ہم میں سے اکثر سوچتے ہیں کہ یہ ایک کام ہے۔ بہت سے گریجویٹس اور انجینیئر اپنی ڈگریوں کے بعد درحقیقت ان ملازمتوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور وہ کہیں گے کہ وہ بہتر مواقع کی تلاش میں ہیں لیکن اب ہماری معاشی بحالی کے باوجود بہتر اور اچھی نوکریاں بہت نایاب ہو گئی ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent