جرمنی: اجتماعی قبر سے ’بلیک ڈیتھ‘ متاثرین کے سینکڑوں ڈھانچے دریافت

ان قبروں سے ملنے والی لاشوں کا تعلق بلیک ڈیتھ وبا کی درجنوں لہروں سے ہے جن کے دوران یورپ میں 14ویں اور 18ویں صدی کے درمیان لاکھوں افراد مارے گئے تھے۔

نیورمبرگ سے ملنے والی اجتماعی قبروں میں ایک ہزار سے زیادہ ڈھانچے دریافت ہوئے (تصویر ٹیرا ویریٹا)

ماہرین آثار قدیمہ نے جرمنی میں ایک سائٹ کی کھدائی کے دوران تقریباً ایک ہزار ’بلیک ڈیتھ‘ یا ’سیاہ موت کی وبا‘ سے متاثرین کے ڈھانچے دریافت کیے ہیں جو پورے یورپ میں اس نوعیت کی سب سے بڑی اجتماعی قبر ہو سکتی ہے۔

جرمنی کے جنوبی شہر نیورمبرگ میں نئے اپارٹمنٹس کی تعمیر سے پہلے کی جانے والی کھدائی میں ایسے آٹھ گڑھے ملے جن میں سے ہر ایک میں بالغوں، نوجوانوں اور بچوں کے سینکڑوں ڈھانچے دریافت ہوئے جن کا تعلق 15ویں صدی کے آخر اور 17ویں صدی کے اوائل سے تھا۔

آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کرنے والی کمپنی ان ٹیرا ویریٹا نے ایک بیان میں کہا کہ اب تک تین گڑھوں کی مکمل کھدائی کی جا چکی ہے جبکہ مزید چار کی آئندہ ہفتوں میں جانچ متوقع ہے۔

شہر کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے محکمے سے تعلق رکھنے والی میلنی لینگ بین نے کہا: ’اس طرح کی دریافت پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی اور پوری ایمانداری سے کسی نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ سائٹ نیورمبرگ شہر کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ہم تمام ممکنہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں مل کر کام کر رہے ہیں۔‘

اجتماعی قبروں میں سے دو میں گڑھے کے جنوبی سرے پر بیٹھی ہوئی حالت میں ایک دوسرے کے اوپر لادے گئے بالغ افراد کے ڈھانچے ملے ہیں۔

کھدائی کرنے والی کمپنی نے نوٹ کیا کہ تقریباً نو افراد کو ایک دوسرے کے اوپر بیٹھایا گیا تھا۔

بیٹھی ہوئی حالت میں دفن کیے جانے والوں کے درمیان گڑھوں میں دستیاب خالی جگہوں کو شیرخواروں اور بچوں کی لاشیں سے بھرا گیا تھا۔

ان میں سے ایک گڑھے سے نکالی گئی لاشوں کی تعداد 300 کے قریب پہنچ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن بعد ازاں نامعلوم تعداد میں لاشوں کے نکالے جانے کے آثار بتاتے ہیں کہ شاید ہم یقینی طور پر نہیں جانتے کہ اصل میں پہلی بار کتنے لوگوں کو وہاں دفن کیا گیا تھا۔

آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کرنے والی کمپنی کے مطابق اب تک ان گڑھوں سے تقریباً ایک ہزار لاشیں ملی ہیں جن کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا گیا ہے اور مزید جانچ کے لیے لے جایا گیا ہے۔ کمپنی کے مطابق توقع ہے کہ یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 1500 تک پہنچ جائے گی۔

ماہر بشریات فلورین میلزر نے کہا کہ یہ ہونے والی تباہی کے باوجود ان لاشوں کے ڈھانچے تحقیق کے لیے بہت اچھی حالت میں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’اب ہم ان ہڈیوں میں پوشیدہ تمام معلومات کو تفصیل سے بتا سکتے ہیں مثلاً مختلف قسم کے کینسر کا پھیلاؤ، کھوپڑیوں میں ظاہر ہونے والے جینیاتی تغیرات، مرنے والوں کی عمر اور جنس کا تعین، دانتوں کی حالت سے اس دور میں ان کی صحت اور زندگی کے حالات تک معلوم کیے جا سکتے ہیں۔‘

بلیک ڈیتھ وبا کی درجنوں لہروں سے یورپ میں 14ویں اور 18ویں صدی کے درمیان لاکھوں افراد مارے گئے تھے۔

پچھلی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نیورمبرگ کے علاقے میں لوگوں کو 16 ویں اور 17 ویں صدی کے درمیان تین بڑی اور کئی چھوٹی وباؤں کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے 1533 میں پانچ ہزار سے زیادہ، 1563 میں تقریباً 10 ہزار اور 1634 میں  تقریباً 15 ہزار اموات ہوئیں۔

ٹیرا ویریٹا نے کہا: ’جہاں تک ہم جانتے ہیں کہ یہ سائٹ جرمنی میں سب سے بڑی اجتماعی قبر ہے اور لاشوں کی تخمینہ شدہ  تعداد کے ساتھ ممکنہ طور پر یہ یورپ کی بھی سب سے بڑی اجتماعی قبر ہو سکتی ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق