ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال میں جمعے کو ہونے والے حملے کے نتیجے میں 130 سے زائد اموات کے بعد روس میں آج (اتوار کو) قومی یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ یورپ میں سب سے خونریز حملہ تھا جس کی ذمہ داری داعش (اسلام سٹیٹ) گروپ نے قبول کی۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق روس کے صدر ولادی میر پوتن نے اس ’وحشیانہ دہشت گرد حملے‘ میں ملوث افراد کو سزا دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین فرار ہونے کی کوشش کرنے والے چار مسلح افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
تاہم کیئف نے ایسے کسی بھی تعلق کی سختی سے تردید کی ہے اور یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے روسی صدر پوتن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ الزام ان پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر پوتن نے اس حملے کے بارے میں اپنے پہلے عوامی بیان میں داعش کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بیان کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
جمعے کی شام ماسکو کے شمالی مضافات کراسنوگورسک میں واقع کروکس سٹی ہال پر مسلح افراد نے دھاوا بول دیا تھا، جہاں فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 133 افراد مارے گئے اور بعد ازاں حملہ آوروں نے عمارت کو آگ لگا دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
داعش نے ہفتے کو ٹیلی گرام چینل پر لکھا کہ ’اسلام کے خلاف لڑنے والے ممالک‘ کے ساتھ ’جنگ‘ کے حصے کے طور پر یہ حملہ مشین گنوں، ایک پستول، چاقو اور فائر بموں سے لیس چار جنگجوؤں نے کیا۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اور تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جسے داعش نے اپنے نیوز چینل ’عماق‘ کے ذریعے شائع کیا ہے۔
ویڈیو میں چار افراد کو دیکھا جا سکتا ہے جن کے ہاتھ میں بندوقیں ہیں اور وہ کنسرٹ ہال کی طرف جاتے ہوئے لوگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔
داعش نے، ان چار عسکریت پسندوں کی تصویریں بھی شائع کیں اور کہا کہ تین افراد لوگوں پر گولیاں چلا رہے تھے اور چوتھے شخص نے ہال کو آگ لگا دی۔
یہ تقریباً دو دہائیوں میں روس میں ہونے والا سب سے خونریز حملہ ہے۔
روسی حکام کو خدشہ ہے کہ اموات کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے کیونکہ 100 سے زائد زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
بڑے جرائم کی تحقیقات کرنے والی روس کی تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ امدادی کارکن ہفتے کو بھی جلی ہوئی عمارت سے لاشیں نکال رہے تھے۔
ہنگامی صورت حال کی وزارت نے اب تک 29 متاثرین کے نام بتائے ہیں کیونکہ جھلس جانے کے باعث لوگوں کی شناخت کا عمل پیچیدہ ہوگیا ہے۔
وزارت نے اتوار کو ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں تباہ شدہ عمارت کے ڈھانچوں کو منہدم کرنے اور ملبہ صاف کرنے کے لیے بھاری آلات جائے حادثہ پر پہنچ رہے ہیں۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے ہفتے کو ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ ’دہشت گردوں، قاتلوں، غیرانسانوں کا۔۔بدقسمتی سے ایک ہی انجام ہے: انتقام اور فراموشی۔‘
انہوں نے اس حملے کو ’وحشیانہ اور دہشت گردی کی کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’چاروں مرکزی حملہ آور۔۔۔ وہ جنہوں نے لوگوں کو گولی مار کر قتل کیا، انہیں ڈھونڈ کر حراست میں لے لیا گیا ہے۔‘
روسی ٹیلی ویژن نے سکیورٹی سروسز کو یوکرین اور بیلاروس کی سرحدوں سے متصل مغربی برائنسک خطے کی ایک سڑک پر چار خون میں لت پت افراد سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے دکھایا، جو روسی زبان بول رہے تھے۔
صدر پوتن نے کہا کہ ’انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی اور وہ یوکرین کی طرف سفر کر رہے تھے، جہاں ابتدائی معلومات کے مطابق، یوکرین کی طرف ان کے لیے ریاست کی سرحد عبور کرنے کے لیے ایک راستہ تیار کیا گیا تھا۔‘
تاہم یوکرینی صدر زیلنسکی نے ہفتے کی شام اپنے خطاب میں اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ کیئف اس میں ملوث تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ماسکو میں کل جو کچھ ہوا وہ واضح ہے۔ پوتن اور دوسرے لوگ اس کا الزام صرف کسی اور پر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ایف ایس بی سکیورٹی سروس کا کہنا ہے کہ روس نے اس حملے کے سلسلے میں 11 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اس سے قبل ایجنسی نے کہا تھا کہ حملہ آوروں کے یوکرین میں ’رابطے‘ تھے۔
قومی سوگ
صدر پوتن نے اتوار کو قومی سوگ کا دن قرار دیا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا: ’تمام مجرموں، معاونین اور اس جرم کا حکم دینے والوں کو منصفانہ اور لازمی طور پر سزا دی جائے گی۔‘
تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اموات کی تعداد اب تک 133 تک پہنچ چکی ہے اور ماسکو ریجن کے گورنر کا کہنا ہے کہ امدادی کارکن کئی دنوں تک جائے وقوعہ پر تلاش کا کام جاری رکھیں گے۔
نائب وزیراعظم تاتيانا غوليكوفا نے بتایا کہ تقریباً 107 افراد اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جن میں سے کئی کی حالت تشویش ناک ہے۔
داعش نے سب سے پہلے جمعے کی رات اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور ہفتے کو پھر اس کا اعادہ کیا۔
کچھ عینی شاہدین نے بالائی منزلوں سے مسلح افراد کی ویڈیو بنائی جب وہ لوگوں کو گولی مارتے ہوئے سٹالز سے گزر رہے تھے اور اس فوٹیج کو سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے تھے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے کہا کہ اس کے بعد دہشت گردوں نے آتش گیر مائع کا استعمال کرتے ہوئے کنسرٹ ہال کے احاطے میں آگ لگا دی، جہاں تماشائی موجود تھے جن میں زخمی بھی شامل تھے۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی موت گولی لگنے اور چھ ہزار نشستوں والے حال میں آگ لگنے کے بعد سانس کے ذریعے دھواں اندر جانے کی وجہ سے ہوئی۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس شخص کو ایوارڈ دیا جائے گا جس نے کنسرٹ کے شرکا پر فائرنگ کرنے والے ایک مسلح شخص پر چھلانگ لگا کر اسے ’غیرمتحرک‘ کرتے ہوئے ’اپنے آس پاس کے لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔‘
پوتن نے حملہ شروع ہونے کے 18 گھنٹے سے زیادہ وقت بعد ہفتے کو اپنے پہلے عوامی بیان میں داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے پر بات نہیں کی۔
لیکن واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں اس گروپ کو ’مشترکہ دہشت گرد دشمن قرار دیا گیا جسے ہر جگہ شکست دی جانی چاہیے۔‘
سرکاری آر ٹی میڈیا ادارے کی سربراہ مارگریٹا سیمونیان نے ہتھکڑیاں لگے دو مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی دو ویڈیوز پوسٹ کی ہیں۔ دونوں نے حملے کا اعتراف کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ کس نے کروایا تھا۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چاروں مشتبہ مسلح افراد غیر ملکی شہری تھے۔
روسی ٹیلی گرام چینلوں – بشمول ان کے جن کا تعلق سکیورٹی سروسز کے ساتھ ہے، کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق تاجکستان سے ہے، جو افغانستان کی سرحد سے متصل ملک ہے اور جہاں یہ جہادی گروپ سرگرم ہے۔
تاجکستان کی وزارت خارجہ نے روس کی خبر رساں ایجنسی تاس کو بتایا کہ وہ اس معاملے پر ماسکو کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ہسپتالوں کے باہر رش
ماسکو میں شہری بارش میں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر ہسپتال میں داخل افراد کے لیے خون کا عطیہ دے رہے تھے اور سوگوار کنسرٹ ہال کے باہر پھول چڑھانے آئے تھے۔
دارالحکومت میں کچھ اشتہاری بل بورڈز کی جگہ ایک موم بتی والے یادگاری پوسٹرز نے لے لی اور ملک بھر میں بڑی تقریبات منسوخ کردی گئیں۔
اس سے صرف تین دن قبل پوتن نے ماسکو میں حملے کے بارے میں امریکی انتباہ کو عوامی طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے روسی شہریوں کو ڈرانے کے لیے تیار کیا گیا پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔
روس میں امریکی سفارت خانے نے سات مارچ کو اگلے 48 گھنٹوں کے دوران احتیاط کا مشورہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ’شدت پسند ماسکو میں بڑے اجتماعات کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس میں کنسرٹ بھی شامل ہیں۔‘
واشنگٹن نے کہا کہ حملے کے بعد اس نے ماسکو کے ساتھ براہ راست تفصیلات بھی شیئر کی تھیں۔
لیکن گذشتہ منگل کو ایف ایس بی کے سربراہوں سے بات کرتے ہوئے پوتن نے اسے ’اشتعال انگیز‘ بیان اور ’مکمل بلیک میلنگ‘ قرار دیا گیا، جو بقول ان کے ’ہمارے معاشرے کو ڈرانے دھمکانے اور غیر مستحکم کرنے کے لیے دیا گیا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔