جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ جارحیت سے متعلق بن یامین نتن یاہو کا نقطہ نظر ایک ’غلطی‘ ہے۔ یہ امریکی صدر کا اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے جاری تنازع پر اب تک کا سخت ترین بیان ہے۔
صدر نے یہ بات منگل کی شام یونی ویژن کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہی، جس میں انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امدادی قافلوں پر حالیہ میزائل حملے ’شرمناک‘ ہیں۔ انہوں نے لڑائی روکنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا کہ جارحیت کے پہلے دو ماہ کے دوران اسرائیل اور غزہ کے بارے میں امریکی پالیسی سے عدم اتفاق کا اظہار کرنے کے لیے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عملے کی جانب سے کم از کم آٹھ داخلی اختلافی میمو بھیجے گئے تھے۔
داخلی اختلافی میمو کی بڑی تعداد محکمے کے اندر غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی حمایت کی بہت بڑی مخالفت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک رسمی عمل ہے جس کے ذریعے عملہ اندرونی طور پر کسی پالیسی پر تشویش کا اظہار کرسکتا ہے۔
ورلڈ سینٹرل کچن کے امدادی قافلے پر حملے کے نتیجے میں کارکنوں کی اموات کے بعد ان کی پہلی ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران، گذشتہ ہفتے بائیڈن نے نتن یاہو کو بتایا کہ اسرائیل کے بارے میں امریکہ کی مستقبل کی پالیسی کا تعین اس بات سے کیا جائے گا کہ آیا ان کی حکومت غزہ میں امدادی کارکنوں اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کارروائی کرتی ہے یا نہیں۔
انٹرویو کے دوران جب یہ پوچھا گیا کہ کیا مسٹر نتن یاہو اپنے لوگوں کے قومی مفاد سے زیادہ ’اپنی سیاسی بقا کے بارے میں فکر مند ہیں،‘ تو امریکی صدر نے جواب دیا: ’میں آپ کو بتاؤں کہ میرے خیال میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ایک غلطی ہے۔ میں ان کی سوچ سے متفق نہیں ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ اشتعال انگیز ہے کہ ان چار، تین گاڑیوں کو ڈرون نے نشانہ بنایا اور ایک شاہراہ پر اڑا دیا گیا جہاں ایسا نہیں تھا کہ یہ ساحل کے ساتھ تھیں، ایسا نہیں تھا کہ وہاں کوئی قافلہ چل رہا ہو۔‘
بائیڈن نے کہا کہ وہ اسرائیلیوں سے چھ سے آٹھ ہفتوں کے لیے فائر بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ غزہ میں جانے والی تمام خوراک اور ادویات کے سامان تک ’مکمل رسائی‘ کی اجازت دی جا سکے۔
انہوں نے یونیوژن کو بتایا کہ ’میں نے سعودیوں سے لے کر اردنیوں سے لے کر مصریوں تک سب سے بات کی ہے۔ وہ اندر جانے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اس کھانے کو اندر لے جانے کے لیے تیار ہیں۔ اور میرے خیال میں کوئی بہانہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کی طبی اور خوراک کی ضروریات کو پورا نہ کیا جائے۔ اسے اب کیا جانا چاہیے۔‘
اسرائیل نے سات اکتوبر کو حماس کے اس تباہ کن اچانک حملے کے بعد غزہ میں جارحیت شروع کی تھی جس میں 1200 افراد مارے گئے تھےاور 200 سے زائد افراد کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے، فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جارحیت میں 33,000 سے زیادہ افراد جان سے گئے – جن میں سے تقریباً 13,000 بچے ہیں۔
اقوام متحدہ اور غزہ میں کام کرنے والی متعدد امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ ایک بڑے قحط کے دہانے پر ہے، اور اسرائیل پر اس پٹی میں امداد کی ترسیل کو روکنے کا الزام لگایا ہے۔
© The Independent