امریکہ نے سلامتی کونسل میں فلسطین کی اقوام متحدہ رکنیت کی درخواست ویٹو کر دی جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر نے امریکہ کے اس عمل کو صریح جارحیت قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے جمعرات كی شب اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے فلسطینیوں کی طویل كوشش پر غزہ میں انسانی بحران پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی پریشانی کے باوجود سلامتی کونسل میں ویٹو کے ذریعے ناکام بنا دیا۔
اسرائیل کے اہم اتحادی کی طرف سے یہ اقدام ووٹنگ سے پہلے ہی متوقع تھا۔
12 ممالک نے قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا جس میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی سفارش کی گئی تھی جب كہ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
فلسطینی رہنما محمود عباس کے دفتر نے امریکی ویٹو کو ایک ’صریح جارحیت قرار دیا ہے جو خطے کو مزید کھائی میں دھکیل رہا ہے۔‘
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے جذباتی اور نم آنكھوں كے ساتھ کہا: ’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرارداد منظور نہ ہونے سے ہمارا عزم نہیں ٹوٹے گا اور یہ ہمارے حوصلے کو شکست نہیں دے سكتی۔‘
ان كے بقول: ’ہم اپنی کوششوں سے باز نہیں آئیں گے۔ فلسطین کی ریاست ناگزیر ہے۔ یہ ایک حقیقی ہے۔ یاد رکھیں کہ جب یہ سیشن جاری ہے اس وقت بھی فلسطین میں بے گناہ شہری انصاف، آزادی اور امن میں تاخیر كی وجہ اپنی جانوں سے قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘
فلسطینی مندوب كی تقریر كے دوران كمرے میں موجود دوسرے افراد کی آنکھیں بھی نم تھیں۔
قرارداد کے مسودے میں جنرل اسمبلی سے سفارش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’فلسطینی ریاست کو اس کی موجودہ حیثیت یعنی مبصر کی جگہ اقوام متحدہ کی رکنیت كی جائے۔‘
امریکی ویٹو کے باوجود الجزائر کے سفیر امر بینجامہ، جنہوں نے مسودہ متعارف کرایا، کہا کہ ’قرارداد کی زبردست حمایت ایک واضح پیغام ہے کہ فلسطینی كی مکمل رکن ریاست کے طور پر حمایتی مضبوط اور زیادہ بلند آواز میں واپس آئیں گے۔‘
اقوام متحدہ کا رکن ریاست بننے کی کسی بھی درخواست کے لیے پہلے سلامتی کونسل سے سفارش حاصل کرنی ہوگی یعنی 15 میں سے ویٹو كے بغیر کم از کم نو ووٹوں سے حمایت جس کے بعد جنرل اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے توثیق كی ضرورت ہو گی۔
اسرائیل کے اہم اتحادی امریكہ نے ماضی میں بھی اسرائیل كی حمایت کے لیے اپنا ویٹو استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
واشنگٹن نے کہا ہے کہ اس کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہے کہ اقوام متحدہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مقام نہیں ہے جسے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے نتیجےتسلیم كیا جانا چاہیے۔
جمعرات کو ووٹنگ کے بعد امریکی نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا كہ ’امریکہ دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم یہ ووٹ فلسطینی ریاست کی مخالفت کی عکاسی نہیں کرتا ہے بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات سے ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل نے اس قرارداد کی مذمت کی تھی۔ اقوام متحدہ میں تل ابیب کے سفیر گیلاد ایردان نے کہا کہ ’قرارداد كے بہت سارے حمایت میں ووٹوں نے فلسطینیوں کو مذاکرات کی میز سے بچنے اور ’امن کو تقریباً ناممکن بنانے‘ کا حوصلہ بخشا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کونسل سے بات کرنا اینٹوں کی دیوار سے بات کرنے کے مترادف ہے۔
اسرائیل کی حکومت دو ریاستی حل کی مخالفت کرتی ہے لیكن زیادہ تر بین الاقوامی برادری اس کی حمایت كرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے اکثریت، فلسطینی اعداد و شمار کے مطابق 137 ممالک نے یک طرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کی ایک تاریک تصویر پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خطہ ’خطرے كا شكار ہے۔‘
گوتیریش نے سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’غزہ میں اسرائیل کے فوجی حملے نے وہاں پھنسے شہریوں کے لیے ایک ’انسانی جہنم کا منظر‘ پیدا کر دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا كہ ’اب وقت آگیا ہے کہ انتقامی کارروائی کے خونی چکر کو ختم کیا جائے۔‘
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 33,970 افراد جان سے جا چکے ہیں۔
فلسطینی تیظیم حماس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ امریکی ویٹو کی مذمت کرتی ہے۔