پاکستان خاص طور پر پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پیر کو جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 21 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کامیاب قرار پائی۔
اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں ’ریکارڈ دھاندلی‘ کے الزامات، پنجاب اور بلوچستان کے مخصوص اضلاع میں موبائل فون سروس کی عارضی معطلی اور تشدد کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے، جس کے نتیجے میں ناررووال کے ایک پولنگ سٹیشن کے باہر تصادم میں مسلم لیگ ن کا ایک حامی جان سے گیا۔
قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر ضمنی انتخابات (پنجاب کی دو، خیبرپختونخوا کی دو اور سندھ کی ایک نشست شامل ہیں)، جب کہ پنجاب میں 12 صوبائی نشستوں کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دو دو نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں پی بی 50 (قلعہ عبداللہ) کے تمام حلقوں میں بھی دوبارہ پولنگ ہوئی۔
ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد حکمران اتحاد نے شفافیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی جانب سے آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے، کیونکہ مسلم لیگ سمیت تمام حکومتی اتحادی جماعتوں کے امیدواروں نے ضمنی انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ عام انتخابات بھی شفاف تھے۔ یہ نشستیں جن جماعتوں نے جیت کر خالی کی تھیں وہ واپس جیت لی گئی ہیں۔‘
صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے ضمنی انتخابات کے نتائج کو ’کارکردگی کی جیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’عوام نے پروپیگنڈہ اور جھوٹ کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ نواز شریف پر اعتماد ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’مسلم لیگ ن کو دن رات ایک کرتے دیکھ کر لوگوں نے ضمنی الیکشن میں دوبارہ ووٹ دیا، تحریک انصاف ختم ہو چکی اور دھاندلی کا رونا شروع ہو گیا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ضمنی الیکشن کے نتائج کے حوالے سے یہ کہنا کہ حکومتیں جیت جاتی ہیں یہ بات ٹھیک نہیں۔ جب بانی پی ٹی آئی حکومت میں تھے تو ضمنی الیکشن ہار گئے تھے۔‘
تاہم پی ٹی آئی کے رہنما شوکت بسرا نے ’ضمنی الیکشن میں عام انتخابات سے زیادہ دھاندلی‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے حکمران جماعت کو چیلنج دیا کہ ’الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وہ ایم) کے ذریعے وہ ملک کے کسی بھی حلقے میں الیکشن کروائیں اور جیت کر دکھائیں۔‘
شوکت بسرا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’جس طرح آٹھ فروری کے بجائے نو فروری کو اسٹیبشلمنٹ اور الیکشن کمیشن کی مدد سے پی ڈی ایم جماعتوں کے امیدوار دھاندلی سے کامیاب ہوئے، ضمنی الیکشن میں بھی وہی ری پلے تھا۔ یہ بتائیں ڈیڑھ ماہ میں ایسا کون سا جادو ہوا کہ یہ دوبارہ کامیاب قرار پائے۔ فرق صرف یہ ہے پہلے فارم 47 کے ذریعے انہیں جتوایا گیا، اس بار پولنگ ایجنٹس کو نکال کر فارم 45 ہی جعلی بنائے گئے۔‘
شوکت بسرا کے بقول: ’اگر یہ واقعی شفاف انتخاب کے ذریعے ووٹوں سے جیتے ہوتے تو حلقوں میں کہیں تو کوئی جشن نطر آتا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جن ووٹرز نے امیدواروں کو کامیاب کروایا ہو وہ ان کی جیت پر جشن نہ منائیں، ریلیاں نہ نکالیں یا آتش بازی اور مٹھائیاں تقسیم نہ کریں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں ووٹ ووٹرز نے نہیں بلکہ انتطامیہ نے ڈالے ہیں، اس لیے کہیں انتخابات کی جیت کا جوش دکھائی نہیں دیا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم چیلنج کرتے ہیں کہ ویسے تو جو حلقہ بھی کھولیں، دھاندلی کا پول کھل جائے گا مگر صرف گجرات سے پرویز الٰہی یا لاہور سے مونس الٰہی والا حلقہ کھلوا لیں سب سامنے آجائے گا، اس لیے ہمارے بیانیے کو مذید تقویت ملی ہے۔ ہمیں پہلے بھی دھاندلی سے ہرایا گیا اس بار بھی نظام نے ہماری جیت شکست میں بدلی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے ضمنی الیکشن کو ’نو فروری کے نتائج کا ری پلے‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت نے دھاندلی کے خلاف جمعے کو احتجاج کی کال دے رکھی ہے جبکہ انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔
شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب اور سندھ میں واضح دھاندلی ہوئی، ہمارے لوگ اٹھائے گئے، پولنگ ایجنٹس باہر نکال کر نتائج بنائے گئے، جس کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خیبرپختونخوا میں ہمارے دو امیدوار ہار گئے کیونکہ وہاں ہم نے دھاندلی نہیں کی جبکہ پنجاب اور سندھ میں دھاندلی سے سب جیت گئے۔‘
سیاسی جماعتوں کے بیانات تو ایک طرف لیکن سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست میں ’قیادت کے فقدان‘ کا پہلو واضح ہے۔
تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول: ’جہاں بھی حکومتی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں وہ نشستیں پہلے سے ہی ان ہی جماعتوں نے جیتی تھیں۔ اس لیے دوبارہ کامیابی پر ویسے تو سوال غیر موثر ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہمارے نظام کی خامیوں سے انتخابی شفافیت پر ہر ہارنے والا سوال ضرور اٹھاتا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا: ’پی ٹی آئی کی شکست میں سب سے بڑی وجہ وہ خود ہیں کیونکہ انہوں نے پہلے کی طرح ضمنی الیکشن میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر تنازعات کھڑے کروا لیے۔ لاہور میں حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کے مقابلے میں ٹکٹ نہ ملنے پر محمد مدنی آزاد الیکشن لڑے۔ اسی طرح این اے 119 میں بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شہزاد فاروق کو دوبارہ ٹکٹ دینے پر کئی مقامی رہنماؤں کے تحفظات تھے۔ ایسے ہی پنجاب کے کئی حلقوں میں یہ مسائل دیکھے گئے۔‘
سلمان غنی کے مطابق: ’عام انتخابات کی طرح ضمنی میں بھی قیادت کا فقدان رہا۔ کہیں متحرک مہم دکھائی دی، نہ ہی کوئی اہم رہنما کسی حلقے میں ووٹرز کو متحرک کرتا دکھائی دیا۔ مرکزی قیادت کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے بھی ووٹرز مایوس ہوئے۔ امیدوار اپنے طور پر ہی مہم چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ اس بار عام انتخابات کے نتائج دیکھ کر مسلم لیگ ن کا ووٹر زیادہ نکلا جبکہ پی ٹی آئی کا ووٹر مایوسی کی وجہ سے زیادہ نہیں نکلا۔‘
بقول سلمان غنی: ’جس طرح آٹھ فروری کو مسلم لیگ ن کے ووٹرز کم نکلنے پر انہیں متوقع نتائج نہیں ملے اس بار پی ٹی آئی کے ساتھ وہی ہوا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان انتخابات میں جیتنے کے باوجود حکومت کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ ’پھر موبائل فون اور انٹر نیٹ سروس سے بھی پی ٹی آئی اپنے ووٹرز کو نہ پُرجوش کر سکی، نہ پولنگ سٹیشنز تک لانے میں کامیاب رہی۔‘