چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں کمیشن کی رپورٹ پر ریمارکس دیے ہیں کہ ’لگتا ہے کہ دھرنا کمیشن کا واحد کام جنرل فیض حمید کو الزامات سے بری کرنا تھا۔ کمیشن لکھ رہا ہے کہ آرمی ایک مقدس ادارہ ہے، تو کیا عدالت اور پارلیمنٹ کم مقدس ہیں؟ آؤٹ آف وے جا کر اس جنٹلمین کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟‘
چیف جسٹس نے حکم نامے میں لکھوایا: ’کمیشن نے چھ مارچ کو 149 صفحات اور سات والیوم پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی، جو ہماری رائے میں ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق نہیں ہے۔
’حیرانی کی بات ہے کہ تحریک لبیک کے کسی رکن کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ کمیشن نے فرض کر لیا کہ احتجاج کے لیے اسلام آباد کا سفر آئین کے مطابق نہیں تھا، جب کہ سپریم کورٹ کے حکم نامہ میں لکھا تھا کہ پرامن احتجاج حق ہے۔‘
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ کمیشن کی رپورٹ کی تیاری میں کمیشن نے اپنے ہی ٹرمز اینڈ ریفرنس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے حکم نامے میں لکھوایا کہ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کرائیں اور حکومت بتائے کہ اس رپورٹ کو پبلک کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟‘
انہوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرڈر کی کاپی کمیشن کے اراکین کو بھجوانے کی ہدایت کی تاکہ وہ رپورٹ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کی رائے پر جواب دے سکیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’کمیشن لکھتا ہے آرمی کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہیے تو معاہدے پر دستخط کیوں کیے؟بے شک اجازت بھی ہو۔ کیا اجازت تحریری تھی؟ آپ کو سیاست کرنا ہے تو اتر جائیں سیاست میں۔ ڈی جی سی نے کہہ دیا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق ان کا کام نہیں اور کمیشن نے مان لیا۔‘
پیر کو فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
دھرنا کمیشن کی سفارشات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’یہ پانچویں کلاس کے بچوں کو دینے والی چیز ہے، جو سپریم کورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔‘
انہوں نے دریافت کیا: ’کمیشن نے جنرل فیض حمید کو بلایا یا نہیں؟ اتنے بڑے آدمی کو کیسے بلاتے۔ جنرل فیض حمید نے کہہ دیا اور کمیشن نے مان لیا۔ ان کو بلانے کی ہمت کیسے کرتے۔‘
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میرے خیال سے جنرل فیض حمید نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق معاملات نہیں دیکھتی اور یہ کمیشن کی رپورٹ میں ہے۔‘
فیض آباد دھرنا کمیشن
وفاقی حکومت نے راولپنڈی کے فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے 2017 کے دھرنے پر نومبر 2023 میں انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا تھا۔
اس وقت کے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کمیشن کی تشکیل سے متعلق نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا، جس کے مطابق کمیشن کی سربراہی ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر علی شاہ نے کی، جب ہ سابق آئی جی پی طاہر عالم خان اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ خوشحال خان اس کے اراکین تھے۔
کمیشن نے اس سال اپریل میں اپنی رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق اس 2017 کی پنجاب حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
سماعت کی روداد
دوران سماعت کمیشن ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’کمیشن کے سربراہ اختر علی شاہ کو آج کورٹ آنے کا کہا گیا تھا، سربراہ کمیشن کی جانب سے بیمار ہونے کا بتایا گیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سوالات اٹھائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کس قسم کا انکوائری کمیشن تھا؟ رپورٹ لکھنے والوں کی اہلیت کیا تھی؟ انکوائری کمیشن نے لگتا ہے اپنا کام کسی اور کے سپرد کر دیا تھا، انکوائری کمیشن نے صرف فیض حمید کے بیان پر ہی انحصار کیا ہے، کمیشن کا کام انکوائری کرنا تھا جو نظر نہیں آ رہی، انکوائری کمیشن نے کوئی فائنڈنگ دی نہ ہی ملک کو ہونے والا نقصان پر کچھ لکھا، ملک کو نقصان پہنچانا تو جیسے بنیادی حق بن گیا ہے، آگ لگاؤ، مارو پیٹو ہمارا حق ہے، یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔‘
اس موقع پر جسٹس عرفان سعادت نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہ ’لایعنی باتوں پر آگ لگا دی جاتی ہے، کراچی میں کسی بھی معاملے پر کسی کی موٹرسائیکل روک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔‘
کمیشن نے دھرنے کا ذمہ دار پنجاب حکومت کو ٹھہرایا
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کمیشن کہ رہا ہے پنجاب حکومت رانا ثنااللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیںلا حلف کی خلاف ورزی کس نے کی یہ نہیں بتایا کمیشن نےلا کمیشن کیسے کہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھالا پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ مجھے معلوم نہیں کمیشن کو کس بات کا خوف تھا۔ انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔ کمیشن کی مداخلت نہ کرنے پر ساری رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف لکھ دی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’کمیشن کا سارا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا۔‘
جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ ’کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔‘
فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو نو مئی نہ ہوتا
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کمیشن کا ان پٹ کیا ہے؟ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کر لیں، اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی بھی شاید نہ ہوتا۔‘ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’کمیشن نے لکھا نظر ثانی درخواستیں اتفاق سے سب نےدائر کیں اپنی وجوہات پر واپس لیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ماشا اللہ، یہ لوگ پتہ نہیں پولیس میں کیسے رہے، یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا تو نے چوری تو نہیں کی، درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے، کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظر ثانی درخواستیں دائر ہوئیں، آرکسٹرا کے کنڈکٹر ہوتے ہیں یہاں مگر کوئی کنڈکٹ نہیں کر رہا تھا، کسی نے نظر ثانی کی منظوری دی ہو گی وکیل کیا ہو گا ساری پیپر ٹریل کدھر ہے؟ یہ بہت ہی مایوس کن ہے کیوں ملک کا وقت ضائع کیا، کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟ شاید ٹی ایل پی والے ان کی معاونت کر دیتے، لگتا ہے ان کو بلاتے ہوئے انہیں ڈر لگ رہا تھا، جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا موقف لے لیتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں ہیں۔‘ جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ ’ناشتہ اور کھانے پہنچانے والوں کے تو بیان ہوئے مگر ٹی ایل پی کے نہیں۔‘ چیف جسٹس نے اضافی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’کھانا کھلانا تو کوئی جرم نہیں ہے۔‘
ابصار عالم کا بیان ہوا لیکن فیض حمید کا بیان نہیں ہوا
اسی اثنا میں سابق چئیرمین پیمرا ابصار عالم روسٹرم پر آ گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’کمیشن کہتا ہے کہ ہم ابصار عالم کے بیان پر یقین نہیں کرتے، کمیشن کہتا ہے کہ فیض حمید نے ابصار عالم کے الزامات کی تردید کی، دونوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیتے اور دیکھ لیتے کہ کون سچ کہہ رہا ہے، کمیشن کہتا ہے کہ ابصار عالم نے اپنے بیان کو ثابت نہیں کیا، بڑی عجیب رپورٹ ہے، وفاقی حکومت اس رپورٹ کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟‘
جسٹس نعیم اختر افغان نے بھی استفسار کیا کہ ابصار عالم کا بیان حلف پر لیا جبکہ جنرل فیض حمید کا بیان حلف پر کیسے نہیں لیا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’میں ہدایات لے کر بتا سکتا ہوں۔‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’میں کمیشن کو نوٹس کر دیتا ہوں کہ آ کر بتائیں کیسے سنے بغیر فیصلہ دے سکتے ہیں۔ کمیشن کو جو کام دیا وہ نہیں کیا باقی پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی باتیں لکھ دیں۔‘
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے لکھا پروموشن اسی کو ملتی جس نے ہارڈ ایریا کیا ہو،
یہ کس قسم کی بات ہے ، ان کو کچے کے علاقے میں بھیجیں۔‘ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ان کے پاس تو بہت جدید اسلحہ ہوتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’کیا کمیشن والوں کو انکوائری کیلئے کوئی رقم بھی دی گئی؟‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اصل رقم ابھی نہیں بتا سکتا مگر ان کو ادائیگی کی گئی ہے۔‘