فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو تقریباً 24 لاکھ میں سے پانچ لاکھ سے زائد نان فائلرز کی سمیں بند کرنے کا حکم دیا لیکن پی ٹی اے نے اس حکم پر عمل درآمد کرنے سے معذرت کر لی۔
ایف بی آر کا مؤقف ہے کہ موبائل سمیں بند کرنے سے ٹیکس فائلرز کی تعداد اور ایف بی آر کی آمدن میں اضافہ ہوگا جبکہ
پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ موبائل سمیں بند کرنے سے ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ ایف بی آر کو بھی نقصان ہوگا۔
ایف بی آر اور پی ٹی اے کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ وزیر خزانہ بھی اس معاملے میں کود پڑے ہیں لیکن ابھی تک ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آر کا مؤقف درست ہے یا پی ٹی اے کا؟ اس فیصلے سے ملک کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟
اس حوالے سے لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری عبدالوحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایف بی آر کا مؤقف ہے کہ جن افراد کی موبائل سم بند کرنے کا کہا گیا ہے ان کے بینک اکاؤنٹس میں بڑی ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں لیکن وہ ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کر رہے۔
’یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آر اپنے اختیارات کیوں استعمال نہیں کر رہا؟ اگر ایف بی آر کو پتہ ہے کہ فلاں شخص بڑی ٹرانزیکشنز کرنے کے بعد بھی ٹیکس ادا نہیں کر رہا تو اس کو اصول کے مطابق تین نوٹس بھیجے۔
’اس کے بعد آرڈر پاس کرے اور پھر ریکوری کا آرڈر بھیجے۔ بینک اکاؤنٹ اور اس میں موجود رقم کو منجمندکر دے۔ اس سے ٹیکس ریکوری بھی زیادہ ہو گی اور
ٹیکس فائلرز میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگا۔‘
عبدالوحید کا ماننا ہے کہ یہ سب سے زیادہ تیز اور مؤثر طریقہ ہے جبکہ موبائل سمیں بند کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔
’پاکستان میں ایک سو روپے کی نئی سم مل جاتی ہے۔ کوئی بھی شخص سم بند ہونے پر، بیٹے، بھائی، بیوی کے نام کی سم نکلوا لے گا۔ وہ اپنا کاروبار اور معاملات زندگی آسانی سے چلائے گا اور ایف بی آر کو بھی ٹیکس فائلرز میں اضافہ بھی نہیں ہوگا۔
’ایف بی آر کو سوچنا چاہیے کہ اپنے اختیارات استعمال کرنے کی بجائے دوسروں کے اختیارات کی بھیک مانگنا مناسب نہیں۔‘
پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محسن ندیم کے مطابق ایف بی آر کی یہ اپروچ مضحکہ خیز ہے۔ یہ صرف ٹیلی کام سیکٹر کے ساتھ ایسا نہیں کر رہے بلکہ ہر کاروباری سیکٹر اس سے متاثر ہے۔
جب یہ ٹیکس اکٹھا نہیں کر پاتے تو ریئل سٹیٹ والوں سے کہتے ہیں کہ آپ اکٹھا کرکے ہمیں ٹیکس جمع کروائیں، نان فائلرز سے ٹیکس اکٹھا کرنے کی ذمہ داری بینکوں پر ڈال رکھی ہے، نان فائلرز گاڑیاں خریدنے والوں کی ذمہ داری آٹو کمپنیوں پر ڈال دی ہے۔
20 مئی، 2022 کو اسلام آباد میں ایک موبائل فون کی دکان کا منظر (اے ایف پی)
’اب نان فائلرز سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ٹیلی کام سیکٹر کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ اگر ٹیلی کام کمپنیوں نے ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے قربانی دینی ہے تو ایف بی آر میں ملازمین اور افسران کے لاؤ لشکر کی کیا ضرورت ہے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر کا تقریباً 30 ہزار سے زیادہ کا عملہ ہے اور 98 فیصد ٹیکس کمپنیاں ٹیکس ودہولڈ کر کے اکٹھا کرتی ہیں صرف دو فیصد ٹیکس ایف بی آر خود اکٹھا کرتا ہے۔
’بھاری تنخواہوں اور عمارتوں سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اپریل میں ایف بی آر نے 63 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا کیا۔ اس سے بہتر ہے کہ ایف بی آر کو ٹھیکے پر دے دیا جائے اس سے ملک کو اربوں روپے کی ماہانہ بچت ہو سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک ٹیلی کام کمپنی میں کام کرنے والے ڈائریکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس وقت ٹیلی کام کمپنیاں تقریباً 80 ارب روپے کا ٹیکس ایف بی آر کو دے رہی ہیں۔
’ہر کال، میسج اور انٹرنیٹ پیکج پر عوام سے ٹیکس وصول کر کے ملکی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ ایف بی آر کی اس آمدن میں بھی کمی آ سکتی ہے۔
’اس کے علاوہ ٹیلی کام سیکٹر نے صارفین سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کر رکھا کہ وہ ایف بی آر کے کہنے پر ان کی سم بند کردیں گے۔
’ایسا کرنے سے صارفین ٹیلی کام کمپنی پر کیسز کر سکتے ہیں جس سے عدم اعتماد بڑھے گا جو ملک کے لیے اچھا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ٹیلی کام کمپنیاں بیرون ممالک کے سرمائے سے چل رہی ہیں۔ اگر ان کی آمدن میں کمی ہو گی تو بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں ٹھہرانا مشکل ہو سکتا ہے۔
ایک طرف سعودی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری کی درخواست کی جا رہی ہے اور دوسری طرف سرمایہ کار کمپنیوں کے منافعے پر لات مارنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ مناسب نہیں۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ’اس وقت موبائل سمیں منی بینک اکاؤنٹس کے طور پر کام کر رہی ہیں، بینکنگ لین دین متاثر ہو گا، براہ راست ترسیلات زر اور خاندان کے افراد کی مالی مدد سمیت کئی معاملات متاثر ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں جب سرکار کسی کام کو کرنے کا ٹھان لیتی ہے تو اس کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں رہتی۔
’ملک میں ٹوئٹر بند ہے۔ کس نے کیا، کیوں کیا اور کیسے کیا، کچھ معلوم نہیں لیکن جب سرکار نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر اس نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایف بی آر ٹیکس فائلرز اور آمدن بڑھانا نہیں چاہتی۔ یہ سب معاملے کو لٹکانے کے بہانے ہیں۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔