افغانستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فیورٹ ٹیموں میں شامل

افغان کھلاڑی صدیق اللہ اٹل نے اے ایف پی کو بتایا: ’ماضی میں جب ہم کسی بڑی ٹیم کو شکست دیتے تھے تو ہماری جیت کو ’اپ سیٹ‘ قرار دیا جاتا تھا۔’ اپ سیٹ‘ کا لفظ اب ڈکشنری میں نہیں ہے اور ہم فیورٹ ٹیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔‘

15 مئی 2024 کی اس تصویر میں افغان آل راؤنڈر ننگیالیا کھروٹے کابل کے ایوبی کرکٹ سٹیڈیم میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2024 کے قبل پریکٹس کرتے ہوئے (اے ایف پی)

نوجوان افغان کرکٹ ٹیم، جس کی اوسط عمر صرف 25 سال ہے، 50 اوور کے ایونٹ میں اپنی شاندار کارکردگی کے بعد اب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران بھی اپنے مداحوں کو خوشیاں دینے کے لیے پرعزم ہے۔

اکتوبر میں افغانستان نے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف آٹھ وکٹوں سے شاندار فتح کا جشن منایا تو کابل کی فضا آتش بازی سے جگمگا اٹھی تھی۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغان ٹیم دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چھٹے نمبر پر رہی، جس کے باعث ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے لیے بھی اس ٹیم کی امیدیں بڑھ گئی ہیں، جس کا آغاز ہفتے (یکم جون) کو ہوگا اور یہ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلا جائے گا۔

 22 سالہ صدیق اللہ اٹل نے ویسٹ انڈیز میں اپنے ٹریننگ کیمپ سے فون پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’ماضی میں جب ہم کسی بڑی ٹیم کو شکست دیتے تھے تو ہماری جیت کو ’اپ سیٹ‘ قرار دیا جاتا تھا۔‘

بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اوپننگ بلے باز نے مزید کہا: ’اپ سیٹ‘ کا لفظ اب ڈکشنری میں نہیں ہے اور ہم فیورٹ ٹیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم ’کسی سے کم نہیں۔‘

افغانستان کئی دہائیوں سے شورش کا شکار رہا لیکن ملک میں کرکٹ کا جذبہ کبھی ختم نہیں ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

20 سالہ آل راؤنڈر ننگیالیا کھروٹے نے کہا: ’جب آپ کو چار کروڑ لوگوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو یہ انتہائی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔‘

حامیوں کی خوشی

انہوں نے روانگی سے قبل کابل میں اے ایف پی کو بتایا کہ اپنے ملک کی نمائندگی کرنا ’بہت خوشی کی بات‘ ہے اور اب انہیں حامیوں کی ’بلند توقعات پر پورا اترنا‘ ہوگا۔

صدیق اللہ اٹل نے مزید کہا: ’اندرون اور بیرون ملک افغانوں کی جانب سے محبت قابلِ ذکر ہے۔‘

افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی)، جو مردوں کی ٹیم کا انتظام سنبھالتا ہے، کو ملک کی طالبان حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے، جس نے 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ملک سے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔

طالبان حکمرانوں نے، جنہیں ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا، خواتین کے کھیلوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

افغانستان کی ورلڈ کپ میں شرکت اپنے ساتھ کچھ تنازعات بھی لائی ہے، جس میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے قواعد کی خلاف ورزی کی گئی، جس کے مطابق ٹیسٹ کھیلنے والے تمام ممالک میں خواتین کی ٹیم ہونی چاہیے۔

اس سے قبل آئی سی سی نے کہا تھا کہ یہ معاملہ ’زیر التوا‘ ہے جس کے تحت افغانستان کو مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاہم انگلینڈ اور آسٹریلیا نے ورلڈ کپ کے علاوہ ان کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔

’یہ ہمارے ہیرو ہیں‘

دہائیوں کی جنگ اور غربت کے باوجود افغان کرکٹ نئی اکیڈمیوں، سپانسر شپ معاہدوں اور ٹورنامنٹ فنانسنگ کے ساتھ مضبوط ہوئی ہے۔

2024  کے ورلڈ کپ میں ان کا پہلا میچ چار جون کو گیانا میں یوگنڈا کے خلاف ہے۔

کابل میں راشد خان کرکٹ اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والے کرکٹ کے شوقین افضل خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہماری ٹیم یہاں پہنچ چکی ہے اور بہت کم وقت میں بہت اچھا کھیل رہی ہے۔‘

افغان کپتان اور سپنر راشد خان کی پیروی کے لیے پر امید 19 سالہ افضل خان نے کہا: ’یہ ہمارے ہیرو ہیں، ان کے لیے میرے دل میں ہمیشہ جگہ رہے گی۔‘

افضل کے مطابق: ’انہوں نے ٹیم اور ہماری کرکٹ کو اس سطح پر لانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔‘

گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں افضل خان نے کہا تھا: ’ہم اس ورلڈ کپ میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور اپنے ہم وطنوں کی توقعات پر پورا اتریں گے۔‘

کابل میں تربیت میں مصروف ایک اور نوجوان کرکٹر نسیم خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ افغانستان کے لیے بہترین ورلڈ کپ ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ